• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ 8 ماہ میں ملک میں تبدیلی حکومت کے بعد جو کچھ ہوا اس کی اصل پروڈکٹ تو سیاسی ، معاشی اور انتظامی کی وہ بدترین شکل ہے ،جس نے عوام اور ریاستی اداروں میں اچانک پہلے سے موجود بڑے فاصلے کو اعتماد کے شدید فقدان میں تبدیل کر دیا۔ دلچسپ اور حوصلہ افزا ہے کہ اس کے باوجود کہ اس عرصے میں قومی سیاست میں اقتدار و اختیار کا جو کھلواڑ مچایا گیا، وہ کئی لحاظ سے تباہ کن ہونے کے باوجود اسٹیٹس کو کے انہدام اور قومی امنگوں اور شدید عوامی ضروریات کے اہتمام کے آغاز کا سبب بنتا بھی نظر آ رہا ہے۔کیسے ؟اس طرح کہ عسکری قیادت کی متفقہ اور پرامن تبدیلی سے عام انتخابات کے جلد اور شفاف ہونے کی امید پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت کی خود کو سیاست و حکومت کے معاملات سےمکمل باہر رکھنے کی شدید قومی ضرورت پوری ہونے کے عزم و امکان میں یکدم بہت بلند درجے کا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ قومی تقاضا پورا ہونے کا عملی آغاز ہوگیا تو اس کی وجہ عوامی بدلتے رجحانات اورتیور ہی ہوں گے،جس میں ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے نے ملک گیر سطح پر خود ہی عوام کو ایمپاورڈ کرنے کی ٹھان لی ہے صرف یہ ہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ اب وہ حکام ،جس بھی شکل ہوں ۔عوامی مفادات سے متصادم کرپٹ اور بلا کے خودغرض عوامی نمائندے یا قومی مفاد کے نام پر اپنی غیر آئینی شخصی ضروریات وخواہشات پوری کرنے والی عسکری قیادت ان کا خود احتساب کرنے کیلئے پرعزم بھی ہوگئے اور اہل بھی ۔سوال یہ ہے کہ یہ انہونی یعنی عوام کے اتنے جلد ایمپاورڈ ہونے کی ہونی کیسے ہو گئی ؟اس کی چار پانچ بڑی وجوہات بنیں متروک سیاسی ہتھکنڈوں کے استعمال سے آٹھ ماہی حکومت پہلے ہی پچھلی حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دے رہی تھی ،اس کے علاوہ کی جانے والی ناقابل ہضم (ایٹ لارج) رجیم چینج اور اس کا حیران کن فوری عوامی ردعمل، پہلے سے سرگرم نوجوانوں پر مشتمل عمران کے سیاسی ایجنڈے کو سپورٹ کرتا سٹیزن جرنلزم، پاکستان آئوٹ آف پاکستان (POP)کا سوشل میڈیا ہی نہیں اپنے اپنے شہروں میں بھی قومی سیاست کے حوالے سے سرگرم ہو جانا اور متذکرہ برپا ہوتے انقلاب آفریں رجحانات کے عمل میں ڈھلنے کی ہمت و جرات اس کے ساتھ جڑے غیر ملکی سازش کی بازگشت پر تمام تر تردیدوں اور وضاحت کے باوجود پیپل ایٹ لارج ،سچ ہونے کا یقین بھی متذکرہ اچانک عود آنے والی تبدیلی کا سبب ہے۔

خدارا ! کوئی بھی برا نہ مانے، سمجھنے کی کوشش کرے ادراک اور فہم،قومی سیاست کی مطلوب فیصلہ سازی کے بڑے لازموں میں سب سے نمایاں عنصر ہے، ظہور پذیر اس زندہ و جاوید حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ پورا ریاستی ڈھانچہ بشمول جاری سنگین سیاسی و اقتصادی بحران کو پیدا کرنے کا ذمہ دار بھی ہے اور اسے انتہا پر لیجانے کا بھی گویا منتخب ایوان ،انتظامیہ (ہر دو مدت پوری کرنے والی عسکری اور سول انتظامیہ )اور عدلیہ اس کی برابر ذمہ دار ہیں جبکہ اپنی بے بسی و بے کسی ، دال روٹی کے لالوں کے ساتھ اپنے مطلوب پوٹینشل سے عوام اپنی تمام تر مشکلات و مصائب کے ہوتے گھروں سے نکلے ہیں ،انتخاب سے حکومت کے مسلسل فرار او رگریز (عام ہی نہیں بلدیاتی سے بھی ) کے باوجود انہوں نے اپنی امیدوں سے قریب تر سمجھتے عمران خاں کی غلطیوں و کوتاہیوں، اناڑی پن اور واضح گرے ایریاز کو نظرانداز کرتے خاں کے عوام کے ساتھ چلنے ،رجیم تبدیلی کے خلاف ڈٹ اور جم جانے پر انتخابی مہم کا سا ماحول پورے ملک میں پیدا کر دیا ۔قوم نے اور عمران خان نے تمام مسائل کا حل فوری اور شفاف الیکشن کو قرار دیا ۔اس فوری ردعمل سے وہ ماحول بنا جسے ریورس کرنے کے لئے مدت پوری کرتی عسکری قیادت نے عوامی شعور اور رجحانات سے برپا ہوتی تبدیلی کو سختی سے کچلنے کے لئے جو آمرانہ روش اختیار کی اس کے مقابل عمران خان نے بحران کی شدت کے پرخطر ہونے پر اپنی جان حاضر ہونے کا عملی ثبوت دینے کے بعد صورتحال کے مسلسل تشویشناک ہونے پر شدید حکومتی پروپیگنڈے سے بے نیاز ہو کر جس حقیقت پسندی کا ثبوت دیا اور ’’یو ٹرن‘‘ کے مسلسل طعنوں کے مقابل صورتحال کے عین مطابق فیصلہ ساز اور روایتی سیاست کا توازن بھی قائم رکھا ،اس سے بالآخر بحران کا ایک بڑا حصہ جو اپنی انتہا پر پہنچ گیا تھا خان کے رویے میں بڑی اور بروقت تبدیلی سے کوئی اور برے نتیجے کے بغیر ٹل گیا۔ انہوں نے قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد بھی اپنے لانگ مارچ کی تکمیل کے سیاسی عزم میں صورتحال کے عین مطابق اور حکومتی ہٹ دھرمی اور پروگرام میں تبدیلی کرکےعوام میں آکر انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے اپنی صوبائی اسمبلیاں ختم کرنے کی جو شطرنجی چال چلی اس نے ہار س ٹریڈنگ کے دوسرے بڑے حملے کو ٹال دیا ۔اب خود وفاقی حکومت چاروں شانے چت نظر آنے کے بعد درمیانے حل کی تلاش میں ہے۔

اس پس منظر میں عمران خان کی نئی عسکری قیادت کی تعیناتی پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کو مبارک باد کے ٹوئٹ سے مطلوب درجے کے ناگزیر سول ملٹری ریلیشنز قائم کرنے کی ونڈو بھی کھل گئی ہے، یہ عمران خان کا شخصی پیغام ہی نہیں بلاشبہ ملک کی سے بڑی وفاقی پارلیمانی قوت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بری طرح ڈسٹرب ہو جانے والے تعلقات کو بحال کرنے کے جمہوری اور قومی جذبے کا کھلا اور بلا جھجک اظہار ہے۔ اس میں خاں صاحب نے قیام اور تعمیر پاکستان کی سنہری تاریخ سے بانی پاکستان کے سیاسی نظریے سے رہنمائی لیکر نئی عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے کی شعوری کوشش کی ہے ۔مبارکباد کے اس پیغام میں سابق وزیر اعظم اور ملک کے موجود سب سے پاپولر سیاسی لیڈر نے مسلح افواج سے قائد اعظم کے خطاب کا حوالہ بھی شیئر کیا، جس میں بانی پاکستان نے فرمایا تھا ’’مت بھولیں، مسلح افواج قوم کی ملازم ہیں۔آپ قومی پالیسی سازی نہیں کرتے، یہ سویلینز کا کام ہے اور آپ وہی کام کریں گے جو آپ کا ہے اور آپ وہی کام کریں گے جو آپ کے سپرد کیا گیا ہو‘‘۔خان صاحب نے اپنے پیغام میں امیدظاہر کی ہے کہ ’’نئی عسکری قیادت ملت و ریاست کے درمیان گزشتہ 8ماہ میں جنم لینے والے اعتماد کے فقدان کے خاتمےکی سبیل کرے گی، ریاست کی قوت عوام سے کشید کی جاتی ہے‘‘۔

یقیناً پنجاب حکومت کو اکھاڑنے کی مہم جوئی ترک کرکے ممکنہ حد تک جلد انتخابات کے انتخابی شیڈول پر اتفاق اور اعلان سے سیاسی و اقتصادی بحران کا گراف بھی گرنا شروع ہو جائے گا ۔حرف آخر یہ ہے کہ سول خصوصاً اور یقیناً عسکری قیادت بھی پاکستان کو حقیقی اسلامی جمہوریہ بنانے کےلئے ایمان کی حد تک ارادہ باندھ لیں کہ حرف آخر، ’’آئین پاکستان کا مکمل اطلاق اور سب شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ ‘‘ ہی ہے۔

تازہ ترین