• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبر داد خان
ہر حکومت اپنی ٹیم کے مختلف کھلاڑیوں کے مقام کو سامنے رکھتے ہوئے نئے پراجیکٹس آگے بڑھاتی رہتی ہے اور آج کل مختلف درجہ کے قائدین اس موضوع پر کھلی بات کررہے ہیں کہ حال اور اگست2023ء (جب انتخابات ہونے ہیں) کہ درمیان بہت کم عرصہ رہ گیا ہے اور ان قلیل دنوں میں انتخابات منعقد نہیں کئے جاسکتے لہٰذا منطقی تقاضا یہ ہے کہ انتخابات کو اگلی کسی تاریخ پر ڈال دیا جائے، اس پراجیکٹ کو آگے بڑھانے میں حکومت کی اتحادی جماعتیں جے یو آئی اور پیپلز پارٹی پیش پیش ہیں۔ عمران خان جب سے حکومت سے باہر آئے ہیں دہائی دے رہے ہیں کہ حکومت کام کرتی رہے، ان کی صرف ایک ہی ڈیمانڈ چلی آرہی ہے کہ انتخابات کی تاریخ دے دیں، تاریخ مل جانے کے بعد اس پر مباحثہ ہوتا رہے گا، حکومت کا یہ جواب کہ انتخابات وقت پر اور آئین کے مطابق ہوں گے اکثر لوگوں کے لیے ایک نامکمل جواب سمجھا جارہا ہے، ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ انتخابات جب بھی ہوئے کسی آئینی فریم ورک کے تحت ہی ہوں گے لیکن اصل بات وقت کی ہے اور تمام حکومتی ترجمان بشمول وزیراعظم کسی تاریخ یا مہینہ کی بات کرنے سے ابھی تک کترا رہے ہیں جس سے ان کی ایسی نیت کہ وہ ان انتخابات کو کافی عرصہ تک ملتوی کرنا چاہتے ہیں، میں ابہام کی گنجائش نہیں رہ جاتی، ہر گزرتے دن کے ساتھ اتحادی حکومت کی قیادت کے اہم رکن مثلاً مولانا فضل الرحمن، قمر زمان کائرہ اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اسمبلی میعاد میں توسیع کی دلیل کو آگے بڑھا رہے ہیں، عمومی طور پر سیلاب سے پیدا شدہ غیر اطمینان بخش حالات اور غیر مستحکم معیشت کی دو اہم وجوہات بیان کی جارہی ہیں، ماہرین کے ایک طبقہ کا خیال ہے کہ پانی کی نکاسی اور آبادکاری کے معاملات آئندہ تین ماہ کے اندر قابل قبول حد تک حل کئے جاسکتے ہیں تو ہم مارچ، اپریل کی طرف دیکھ رہے ہیں، رہ گئی بات معیشت کی بہتری کے لیے تو یہ مسئلہ قابل قبول حد تک سیٹل ہونے میں کم و بیش چھ ماہ درکار ہیں لیکن اچھے سگنلز پہلے نظر آنا شروع ہوجائیں گے، حالات جولائی الیکشن کے لیے بن سکتے ہیں جس کے لیے مارچ، اپریل کے بعد عبوری دور شروع ہوجانے چاہئیں۔ حکومت جولائی میں انتخابات کا اعلان کرکے ملک کو ایک مشکل صورت حال سے نکال سکتی ہے، اس قسم کے کسی بیان کے بعد عمران خان کے لیے مزید کچھ کہنے کے لیے نہیں بچتا، (ماسوائے روایتی بیان بازی کے)۔ لگتا ہےPTI کی قیادت اسمبلیاں توڑنے کا ارادہ ترک کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے، انتخابات پر عوامی پیسہ خرچ ہوتا ہے، بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے، آدھے تیتر، آدھے بٹیر انتخابات آئینی پیچیدگیاں پیدا کردیتے ہیں جن سے بالآخر کچھ بامقصد نتائج نہیں نکل پاتے، پاکستان میں حالات اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ کسی غیر آئینی تجربہ کو آزمایا جائے اور اسمبلیوں کے ذریعہ موجودہ قومی اسمبلی کی مدت میں اضافہ ایک ایسا ہی تجربہ ہوگا جو اعلیٰ عدالتوں میں بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے اور عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اسے اس بنیاد پر رد کردے گا کہ یہ ایک نیا غیر آئینی تجربہ ہوگا جس سے دور رہنا ملک کے مفاد میں ہے، بعض حلقوں کی یہ رائے کہ موجودہ حکومت آئین کے تحت بنائی گئیں عبوری حکومت کا متبادل ہوسکتی ہے، ایک غلط تجزیہ ہے، موجودہ حکومت کی تشکیل میں نہ اس آئینی جواز کو مدنظر رکھا گیا ہے جس کی ضرورت ہے اور نہ ہی حکومت میں آئے دن افراد کے اضافے ایک واضح مقصد کا بیانیہ ہے لہٰذا حکومت خود ہی اپنے آپ کو انتخابات کے حوالہ سے ’’عبوریت‘‘ کا لقب دے کر ایک غیر آئینی کام نہیں کرسکتی، اگر ایسا ہوا تو شدید ردعمل ہوگا، دشمنام طرازی کے ماحول میں ملکی مسائل پر بات نہیں ہورہی اور اس غیر سنجیدہ ماحول میں کبھی کبھار ’’ٹیکنو کریٹس‘‘ حکومت کا ذکر بھی سننے کو ملتا ہے جو حالات کی موافقت میں ایک سنجیدہ خیال ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا کہا سن، مان نہیں رہیں، حکومت میں لوگ ماضی میں کی گئی غلط کاریاں ختم کروانے میں لگے ہوئے ہیں۔ PTIکے علاوہ حزب اختلاف نام کی کوئی چیز ملکی سیاست میں موجود نہیں، صدر مملکت ایک کمزور پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی حالات میں بہتری لانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں مگر ان کی سن کوئی نہیں رہا، اسٹیبلشمنٹ بظاہر قومی سیاست سے الگ ہوچکی ہے، اس لیے ٹیکنو کریٹس کی ٹیم تیار کرکے ملک کی باگ ڈور ان کے حوالے کردینا ممکن نظر نہیں آرہا، صرف جلد الیکشن کا آپشن بچتا ہے جس پر عمل کرکے ملک کو دلدل سے نکالا جاسکتا ہے، ماضی میں جب بھی ملک کو سیاسی بحرانوں کا سامنا ہوا ملک میں موجود سیاسی جماعتوں نے گفت و شنید کے لیے ماحول مہیا کیے اور بالآخر مسائل کے حل نکلے، آج بدقسمتی سے وہ ماحول موجود نہیں، اس ماحول کو بدلنے کے لیے ایک عرصہ کے لیے ایک ’’غیر سیاسی‘‘ حکومت چاہئے جس کو صرف ملک کو استحکام فراہم کرنے سے غرض ہو۔ ’’ٹیکنو کریٹس حکومت‘‘ جس کو اکٹھا کرنے میں سیاسی جماعتیں خوش نہیں ہوں گی، اس مسئلہ کا ایک ممکنہ حل کہا جاسکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا کام یہ بھی ہے کہ وہ ملک کے حالات پر نظر رکھے اور جہاں خرابیاں نظر آئیں اور حکومت وقت کچھ نہ کررہی ہو تو اس کی توجہ دلائے، فوج کے ہر فرد نے ملک کی حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہے اور کچھ نہ کرنا اس حلف کی خلاف ورزی ہوگی، اس لیے یہ کہنا کہ افواج پاکستان ملکی سیاست سے علیحدہ ہوگئی یا علیحدہ رہ سکتی ہیں، غیر حقیقی ہے، ملک کی بہتری کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا آن بورڈ رہنا ضروری ہے، فوج اور اس کے ادارے آج بھی متحرک ہوکر سیاستدانوں کو ایک میز پر لاسکتے ہیں، کسی کی بھی جرأت نہیں کہ آرمی کی طرف کال کا مثبت جواب نہ دے، ہم سب اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ جمود کو توڑنے کے لیے ایسے اقدامات کی ہی آج ضرورت ہے، افواج پاکستان ایک محب وطن اور وطن پرست ادارہ ہیں، وقت کا تقاضا ہے کہ وہ موجودہ صورت حال میں اپنا کردار ادا کرے، کچھ نہ کرنا اور ملک کو افراتفری کی طرف بڑھنے دینا آپشن نہیں ہے۔
یورپ سے سے مزید