• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثقافت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ تہذیب کو پروان چڑھنے کے لئے نسلیں درکار ہوتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس عمل کا آغازاس صورت میں ہوتا ہے جب اسے شعوری کوشش کی تحریک میسر ہو۔ تاہم اگر ان کے ارتقا کی ضرورت سے بے حسی برتی جائے تواس کی گراوٹ خود کار طریقے سے اس کی نمو کے تمام خدوخال کو مٹا کر رکھ دیتی ہے جو کسی وقت پروان چڑھے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ ملک میں عوامی مقامات پر جانا یا مواقع میں شریک ہونا بھی خطرناک بن چکا ہے ۔ یہ خوف ناک حد تک بد نظمی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مواقع سے حاصل ہونے والی تعلیم و تربیت کے باوجود انسان سوچتاہے کہ ان سے گریز ہی بہتر ۔ بدقسمتی سے اس رویے کی وجہ سے وہ لوگ بھی تعلیم کے ایک اہم ذریعے سے محروم رہ جاتے ہیں جن کو ان میں دلچسپی تھی اور وہ ان میں شرکت کرتے ہوئے حاصل کردہ علم سے عملی طور پر خاطر خواہ استفادہ کرسکتے تھے ۔

کنگز کالج میں اپنے فیلوشپ پروگرام کے دوران مجھے رائل ایئرچیف مارشل سر مائیک ونگسٹن کا سالانہ خطاب سننے کا موقع ملا۔ یہ ایک بصیرت افروز موقع تھا ۔ ایئرچیف مارشل نے بہت فصاحت سے جیو اسٹرٹیجک امور، برطانیہ کے دنیا میں کردار اور چیلنجز، ہتھیاروں میں آنے والی جدت اورتوازن قائم رکھنے کی کوششوں اور کئی ایک امور کے بارے میں بات کی ۔ حاضرین کی طرف سے پر مغز سوالات بھی پوچھے گئے ۔ وہاں کسی ہنگامے ، دھکم پیل، چیخ و پکار اور گرج چمک کا تصور بھی محال تھا۔

یہ تقریب بش ہاؤس آڈیٹوریم میں ہوئی جسے تقریب سے 24گھنٹے قبل ہی سکیورٹی نے اپنی تحویل میں نہیں لیا تھا۔ مہمان خصوصی کی آمد کا اعلان کرنے والی کوئی گاڑیاں نہیں تھیں ۔ ایئر مارشل کے استقبال کے لئے اہلکاروں کی لمبی قطاریں کہیں دیکھنے میں نہ آئیں۔ وہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح اندر آئے۔ اپنی وردی میں ملبوس، کرسی پر اپنی جگہ سنبھالی ، سامنے کیرولین وائٹ بیٹھی اور انٹرویو کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا، انٹرویو ٹھیک 60 منٹ میں ختم ہوا جس کے بعد ان لوگوں کے لئے استقبالیہ دیا گیا جنہوں نے شرکت کی تھی۔ مجھے کسی طور دم گھٹتا محسوس نہیں ہوا۔ میں سانس لیتا رہا۔ ہاں، میں نے ایک گھنٹے کے قلیل عرصے میں علم کا خزانہ جمع کر لیا تھا۔

جہاں بھی جانے کا اتفاق ہوتا ہے، وہاں واضح نظم و ضبط دکھائی دیتا ہے: زیرِ زمین ٹرین، بس اسٹاپ، کھانے کی جگہوں یا کسی اور جگہ پر افراد قطار بناتے ہیں ۔ کوئی بھی کسی کی جگہ چھیننے کی کوشش نہیں کرتا، پھر ہر کوئی وہی کرتا ہے جو وہ وہاں کرنے آیا تھا۔ یہ اپنی زندگی کو اس انداز میں ترتیب دینے کی خواہش کا عکاس ہے کہ انسان اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ یہ دوسروں کے سامنے لڑنے سے نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس عادت کو معمول بنایا جائے کہ آپ اپنی باری کا اسی طرح انتظار کریں جس طرح دوسرے کررہے ہیں۔

نظم و ضبط کے اس لازمی جزو کی پابندی نہ ہونا اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو خیال کرتی ہے کہ کچھ انسان دوسروں سے زیادہ برتر ہوتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں اپنی روزی کمانے کے لئے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بجائے، وہ ان چیزوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو انھیں وراثت میں ملی ہیں، یا جو کچھ وہ ناجائز ذرائع سے جمع کرتے ہیں۔ وہ اپنا کام خود نہیں کرتے۔ اس کے بجائے کام کرنے کے لئے ان کے پیروکارموجود ہیں۔ معاشرتی تفاوت کو یہ تصور مہمیز دیتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں سے ہر حال میں زیادہ قابل ہوں گے۔ دولت غیر منصفانہ اور غیر مساوی نظام کو رائج کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنے پیسوں سے جو چاہیں خرید سکتے ہیں، یہاں تک کہ ریاست پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں: وہ مقننہ یا سینیٹ میں نشست خرید سکتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہترین اسکولوں میں داخل کروا سکتے ہیں چاہے وہ وہاں جانے کے اہل ہیں یا نہیں۔ وہ عدالتیں خرید سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق انصاف حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ اداروں کو قانون سازی، ان میں ترمیم کرنے یا اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کے لئے خرید سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے زرخرید حامیوں کو محکموں کا سربراہ لگا رکھا ہے جو ان کی منشا پر چلتے ہیں کیوں کہ وہ اس لئے نامزد کئے گئے تھے۔

برتری کے تصور کی کوئی انتہا نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں اس کے فوائد لامتناہی اور اخراجات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عیش و عشرت میں پیدا ہونے والے اسے زندگی گزارنے کے ایک ذریعہ کے طور پر لیتے ہیں اور کسی بھی ایسے چیلنج کو توڑ دیتے ہیں جو ان کی آزادی کو محدود کرنے کا خطرہ بن سکتا ہے اور انہیں قانون کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس نصیحت کی ان لوگوں کے لئے کوئی کشش نہیں ہے جو اس نظام کو اپنا زرخرید غلام سمجھتے ہیں جو ان کی خدمت بجا لانے کے لئے وجود میں آیا ہے ۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صرف چند سیاسی جماعتیں یا لوگوں کے گروہ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک قومی کینسر ہے۔ یہ سماج میں پھیل چکا ہے اور ہر کوئی اسے ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے حق کے طور پر لے رہا ہے جن کا وہ اپنے طور پر دعویٰ نہیں کر سکتا۔ وہ یہ کہہ کر اپنے عمل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے کہ جب ہر کوئی اس کا استعمال کر رہا ہے تو وہ کیوں نہیں کر سکتا؟ بیماری کو مزید واضح کرنے کے لئے، یہاں تک کہ سیاسی جماعتیں بھی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کے طور پر منظم ہوتی ہیں جن کے سربراہان نامزدگیوں کے ذریعے مختلف عہدوں پر بھرتی ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ ملک میں مزید جمہوریت کے لئےتبلیغ کرنے سے کبھی باز نہیں آتے، لیکن وہ اپنی پارٹیوں میں خاندانی سیاست پر عمل پیرا ہوتے ہیں جس کی قیادت ہمیشہ والدین سے اولاد کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ پارٹی کا کوئی عام رکن اس کی قیادت کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ سیاسی جماعتوں کے اندر عدم مساوات کا یہ کلچر رائج ہے جو اس تناظر کو تشکیل دیتا ہے کہ وہ قومی رہنما نہیں بن سکتے۔ اس کینسر کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین