• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، 10دسمبر 1948ء کو فرانس کے شہر پیرس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے30شقوں پر مشتمل ہیومن رائٹس کے عالمی چارٹر کی منظوری دی تھی، وہ پوری انسانیت کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر دستخط کرنے کے بعد کوئی بھی ملک اقوامِ متحدہ کا رُکن بنتا ہے، جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں ان اعلیٰ انسانی آدرشوں کی پاسداری کرے گا۔ اس قدر اہمیت کی حامل دستاویز کو پوری دنیا کے سامنے تسلیم کرنے کے بعد بدیہی تقاضا بنتا ہے کہ یہ ممالک اپنے تمام شہریوں کو یہ اعلیٰ انسانی اصول و ضوابط اور ان کی اہمیت ذہن نشین کرواتے ہوئے اپنے اپنے ممالک کے تعلیمی نصاب اور میڈیا میں نمایاں مقام دیں مگر افسوس ، جبر کے نظام کی حامل کئی معاشروں بالخصوص مشرقی معاشروں میں نہ تو اس حوالے سے کوئی خاص ادراک ہے اور نہ ان ممالک کے ذمہ داران یا طاقتور طبقات میں اس حوالے سے زیادہ تشویش یا فکرپائی جاتی ہے۔ہیومن رائٹس کے حوالے سے اس سال کو انسانی عظمت و وقار، انصاف اور شخصی آزادیوں سے منسوب کیا گیا ہے، افراد کی آزادیوں میں مذہبی آزادی سب سے بڑھ کر تقدس و حرمت کی حامل ہے یعنی کوئی بھی شخص مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب ، سفید ہو یا کالا یا بھورا، وہ اپنے ضمیر کی مطابقت میں نظریہ و فکر کی کامل آزادی کے ساتھ جو مذہب یا عقیدہ بھی چاہے رکھے اسے تبدیل یا ترک کرے یا کوئی بھی عقیدہ نہ رکھے۔ ہم اب حقائق کی کسوٹی پر پوری صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہماری بیشتر مسلم ریاستوں میں انسانی حقوق کی ا ن شقوں پر عملدرآمد ی یا تحفظ تو بعد کی بات ہے ، وہ عام انسانوں یا سوسائٹی کے کمزور طبقات کی طاقت کیا بنیں گی بلکہ خود انسانی آزادیاں کچلتے ہوئے اپنے لوگوں پر مختلف حیلوں بہانوں سے جبر کے بدترین ہتھیار چلاتی پائی جاتی ہیں یا سوسائٹی کے طاقتور طبقات کی پشت پناہ بن جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے امریکی اداروں نے حال ہی میں مذہبی آزادیوں کی شدید خلاف ورزی کے مرتکب جن ممالک کی فہرست جاری کی ہے، چین اور شمالی کوریا کی طرح ہمارا وطن عزیز پاکستان اس میں سرفہرست ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے دنیا میں کہیں بھی کوئی بحث یا رپورٹ آتی ہے ، عالمی سطح پر ہمارے متعلق کیوں یہ امر یقینی تسلیم کیا جاتا ہے اور ہمیں اس حوالے سے کیوں عالمی طور پر مسلمہ تقاضوں کے مطابق خیال نہیں کیا جاتا؟کیا یہاں ہمارے میڈیا میں اس حوالے سے کھلے مباحثوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے؟ مثال کے طور پر افغانستان میں جب سے طالبان کی موجودہ نئی حکومت جیسے تیسے برسر اقتدار آئی ہے، وہاں خواتین کے انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی خبریں ہر روز عالمی میڈیا میں اجاگر ہو رہی ہیں، حالانکہ ان لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے سابقہ تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں لہٰذا ایسی سرگرمیوں سے باز رہیں گے جن سے افغان معاشرے میں مذہبی، نسلی یا صنفی امتیاز و منافرت بھڑکے مگر سچ تو یہ ہے کہ خواتین کی آزادی و حقوق کو مسخ کیا جا رہا ہے، یہی صورتحال مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے ہےاور یہ دوحہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ایران میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں۔تین مہینے قبل ایک 22 سالہ کرد بچی مہاسا امینی کو جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران آ رہی تھی، مورالٹی پولیس جسے ’’گشت ارشاد‘‘ کا نام دیا جاتا ہے،کو 1983ء سے لاگو ایک قانون کی خلاف ورزی پر گرفتار کر لیا گیا۔ زبردستی گاڑی سے کھینچتے ہوئے اسے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا جہاں مزاحمت پربدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ ساتھی قیدی خواتین کی شہادت کے مطابق،اس بچی کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں 16 ستمبر 2022 کو اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ خبر عوام تک پہنچی تو ملک گیر احتجاج شروع ہو گیا، تعلیمی اداروں میں بالخصوص احتجاج اس قدر پھیلا کہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تمام بڑے شہروں میں تعلیمی ادارے بند ہو چکے ہیں، اب یہ احتجاج اکثر شہروں تک پھیل چکا ہے اور مختلف اعداد و شمار کے مطابق 475 ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، گرفتار کئے گئے نوجوان اور خواتین کی تعداد اٹھارہ ہزار دو سو چالیس تک پہنچ چکی ہے، جن میں 565طالب علم ہیں۔احتجاج بنیادی طور پر ایرانی حکومت کے عورتوں کے خلاف قوانین کے ردِعمل میں کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف اب ایرانی حکومت اس نوع کے اعلانات کرنے پر مجبور ہے کہ وہ موریلٹی پولیس یعنی گشت ارشاد کو ختم کر رہی ہے یا پردے کے حوالے سے سخت قوانین کو واپس لے لیا جائے گا لیکن ساتھ ہی احتجاج کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ سے آگے بڑھتے ہوئے انہیں پھانسیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین