• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورکمانڈر کوئٹہ جنہیں کمانڈر سدرن کمانڈ بھی کہا جاتا ہے ،ان کا ایک بیان سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔’’ہمارے دل ہر لاپتہ شخص کے اہلخانہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں ،ہم ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں‘‘۔اگرچہ انہوں نے یہ بات2019ء میں تب کہی تھی جب وہ بطور میجر جنرل افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ کے طور پر کام کررہے تھےمگر اب شاید یہ بیان اس لئے دوبارہ اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کورکمانڈر کوئٹہ کی حیثیت سے ان دُکھوں کا مداوا کرسکتے ہیں ۔یہ بیان دیکھ کر مجھے درد دل رکھنے والے ایک اور جرنیل یاد آئے ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید ضیا کورکمانڈر کوئٹہ تعینات ہوئے ۔یہ ریٹائرمنٹ کے بعد لیبیا میں پاکستان کے سفیر بنائے گئے اور پھر مفتاح اسماعیل کے بعد2017ء میں سوئی سدرن گیس کمپنی کے چیئرمین بھی تعینات کئے گئے۔ 22جولائی 2011ء میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید ضیا کا یہ بیان تمام اخبارات میں شائع ہوا کہ بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگیاں اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند نہ ہوا توملکی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔انہوں نے کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسخ شدہ لاشیں ملنے کو میں ذاتی طور پر ایک مکروہ عمل سمجھتاہوں اوروثوق سے کہتا ہوں کہ فوج یا اداروں کی یہ پالیسی نہیں ہے۔اگر ماضی میں کوئی غلطیاں ہوئی بھی ہیں تو اب وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ان غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔لیفٹیننٹ جنر ل جاوید ضیا تو اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد چلے گئے مگر بلوچستا ن میں ظلم و جبر کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔میاں شہبازشریف وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپریل 2022ء میں مختصر دورے پر بلوچستان گئے تو مجبور و مقہور لوگوں نے حسب روایت لاپتہ افراد کا مقدمہ ان کے سامنے رکھا۔جناب وزیراعظم نے یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا کہ میں اس معاملے کو بااختیار لوگوں کے سامنے اُٹھائوں گا اور خلوص دل سے اس مسئلے کو حل کرانے کی کوشش کروں گا۔ماضی میں کئی حکمرانوں نے بلوچستان کے عوام کو لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ حل کرنے کی یقین دہانی کروائی لیکن کبھی کسی نے یوں لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بے بسی اور بے اختیاری کااعتراف نہیں کیا۔جناب عمران خان تو فرمایا کرتے تھے کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے اور ان کے دور میں کوئی شخص لاپتہ ہوا تو پھر یا تو وہ نہیں ہونگے یا پھر لاپتہ کرنے والا شخص نہیں ہوگا۔لیکن انکے دور میں اس حوالے سے صورتحال مزید ابتر ہوگئی۔ممکن ہے وزیراعظم شہبازشریف بے پناہ سیاسی مصروفیات کے سبب لاپتہ افراد کے لواحقین کی آہ وپکار بااختیار لوگوں تک پہنچانا بھول گئے ہوں یا پھر کسی مناسب وقت کے منتظر ہوں ،اسلئے سوچا انہیں یاد دہانی کروادوں کہ یہ عرضی پیش کرنیکا بہترین وقت ہے۔سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے الوداعی خطاب میں فرماگئے ہیں کہ 70سال سے فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت غیر آئینی ہے۔اب جب سابقہ غلطیوں کو درست کیا جارہا ہے تو اصلاح احوال کا یہ عمل محض سیاسی معاملات میں مداخلت تک ہی کیوں محدود ہو؟اسکا دائرہ کار بڑھایا جانا چاہئے۔سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی اس تقریر میں یہ گلہ کیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی فوج کرتی ہے مگرانکے عوام کم وبیش ہی اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیںمگر اسکے برعکس پاکستا ن کی فوج گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔یعنی انہوں نے انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات کی یکسر تردید نہیں کی۔موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کوبھی افواج پاکستان کا تشخص بحال کرنے کا چیلنج درپیش ہے اور وہ اس کیلئے مسلسل مصروف عمل بھی دکھائی دے رہے ہیں ۔چند روز قبل انہوں نے کوئٹہ اور تربت کا دورہ کیا اور کہا کہ بلوچستان میں امن اور سازگار ماحول پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔بلوچستان میں لوگوں کا احساس محرومی دورکرکے انکے معاشی مسائل حل کرنے اورپائیدار امن قائم کرنے کی کاوشیں اپنی جگہ مگر سب سے پہلے مسخ شدہ لاشوں اور جبری گمشدگیوں کا سلگتا ہوا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔دیگر حقوق کی اہمیت اپنی جگہ مگر سب سے پہلے انہیں جینے کا حق دینا ہوگا۔سانحہ مشرقی پاکستان کے مرکزی کردار لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی اپنی خودنوشت The Betrayal of East Pakistanکے صفحہ نمبر 45-46پر لکھتے ہیں کہ’’ 25اور26مارچ 1971ء کی درمیانی رات جنرل ٹکا خان نے حملہ کیا۔پرامن رات کو آہ وبکا،چیخ و پکار اور آتشزدگی میں بدل دیا گیا۔جنرل ٹکا خان نے اپنے پاس موجود تمام ہتھیاروں کو یوں استعمال کیاجیسے وہ اپنے گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کیخلاف کارروائی نہیں کر رہے بلکہ دشمن پر حملہ آور ہوں۔سب سے پہلے تو بلوچستان کے عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ ہمارے لئے زمین نہیں بلکہ لوگ اہم ہیں، ہمارے اپنے لوگ۔

کیونکہ جب علاقہ مسخر کرنے کے بجائے دل فتح کئے جاتے ہیں اور لوگ قریب آتے ہیں تو زمین خودبخود کھنچی چلی آتی ہے۔

تازہ ترین