• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلی کتھا کا اختتام ہم نے انتخاب عالم کے عالمی ریکارڈ پر کیا تھا۔ میرا عقیدہ ہے، میرا یقین ہے کہ کچھ بھی تمام نہیں ہوتا۔ کچھ بھی ختم نہیں ہوتا۔ ظاہری اختتام کے ساتھ غیر متوقع کہانی کی ابتدا ہو چکی ہوتی ہے۔ وقفہ وقفہ سے اس موضوع پر ہماری آپس میں بات چیت ہوتی رہے گی۔ سرِدست پچھلی کتھا کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ہم آج کی کتھا کی ابتدا ایک ایسے ورلڈ ریکارڈ ہولڈر سے کرتے ہیں جس کے بارے میں میرے جیسے بڈھوں کے علاوہ شاید ہی کسی نے کچھ سنا ہو، خاص طور پر موبائل فون کے متوالوں نے۔ اسکے بعد کسی سیاسی سانحے کا ذکر لیکر بیٹھ جائینگے۔آپ نے بروجن داس Brojen Das کا نام سنا ہے؟ نہیں سنا ہے نا؟ پیراک تھے۔ یعنی تیرتے تھے۔ پیراکی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ پیراکی میں ایک سو میٹر، دو سو میٹر اور چار سو میٹر میں پاکستان کے ریکارڈ ہولڈر اور قومی چیمپئن تھے۔ ہم بڈھوں کی طرح وہ برٹش انڈیا میں پیدا ہوئے تھے۔ بروجن داس انیس سو ستائیس میں بنگال میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت وہ مشرقی پاکستان میں تھے۔ پاکستان کا ریکارڈ بریکنگ چیمپئن ہونے کے باوجود بروجن داس کو میلبورن اولمپکس 1956 ءکیلئے نظرانداز کیا گیا۔ پریس کو بتایا گیا کہ بروجن داس کے بازو میں تکلیف تھی۔ مایوسی اور دل شکستگی نے بروجن داس کیلئے بین الاقوامی پیراکی کے دروازے کھول دیئے۔ انہیں فرانس سے انگلینڈ تک انگلش چینل پار کرنے کی دعوت دی گئی۔ بروجن داس پہلے ایشیائی پیراک بنے جنہوں نے انگلش چینل پار کیا۔ اسکے بعد بروجن داس نے چھ مرتبہ انگلش چینل کراس کیا اور مقابلے میں سب سے آگے نکل گئے اور نیا عالمی ریکارڈ بنالیا۔ اسکے بعد انہوں نے ایک اور عالمی ریکارڈ بنا ڈالا جب انہوں نے انگلش چینل کو مخالف سمت سے تیر کر تیرہ گھنٹے اور چھبیس منٹ میں پار کیا۔ ایک مرتبہ باکسر محمد علی کلے نے بروجن داس کو گلے لگاتے ہوئے کہا تھا کہ تیراکی میں تمہارے کارنامے باکسنگ میں میرے کارناموں سے بہت اعلیٰ ہیں۔ دنیا بھر کے اعلیٰ اعزازات سے بروجن داس کو نوازا گیا۔ انیس سو ننانوے میں ہماری سرکار نے بھی بروجن داس کو بعداز موت پاکستان کے سب سے رواجی انعام پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔ تب تک بروجن داس کب کے دنیا چھوڑ کر جا چکے تھے۔ بروجن داس کے تمام عالمی ریکارڈ بنگلہ دیش کے کھاتے میں دکھائے جاتے ہیں۔ تصدیق کرنے کیلئے گوگل پر بروجن داس Brojen Das لکھیں اور خود پڑھ لیں۔ اس بارے میں، میں مزید کچھ لکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ بس اتنا لکھنے کی اجازت دیجئے کہ ہم عالمی معیار کے ہیرو کو سنبھال نہ سکے۔ ہم میں شاید اتنی اہلیت ہی نہیں تھی کہ ہم بروجن داس کو اپنا سکتے۔ کھیلوں کی دنیا میں بروجن داس کے کارنامے کسی بھی صورت میں گریٹ جہانگیر خان سے کم نہیں ہیں ۔ ہماری اپنی دیسی زبانوں میں ایک ملتی جلتی کہاوت ہے۔ آپ سن لیجئے۔ ہاتھی پالنا راجائوں کا کام ہے۔ اس دیسی کہاوت کے مخفی معنی سمجھ رہے ہیں نا آپ؟ ہم چونکہ راجے مہاراجہ نہیں تھے، اسلئے عالمی سطح کے پیراک چیمپئن بروجن داس کو پالنے پوسنے اور سنبھالنے کے قابل نہیں تھے۔ قائداعظم کے ساتھ بد اخلاقی اور بددیانتی جیسے شرمناک سیاسی سانحے کے بعد ہم پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کا جائزہ لینگے۔ سنا ہے کہ انکے قتل کی چھان بین کرنے کیلئے سرکار نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی تھی۔ اس رپورٹ کا مکمل متن کہاں ہے، کوئی نہیں جانتا۔ہم اللہ سائیں کے بخشے ہوئے پاکستانی جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ منصب پر بیٹھے ہوئے منصب دار کے قریب عام آدمی کا جانا، ان سے ملنا ممکن نہیں ہے۔ وہ حضرات جب کسی کانفرنس، پریس کانفرنس، سیاسی سیمینار میں شرکت کرنے جا رہے ہوتے ہیں تب بڑی چھان بین کے بعد مدعوئین Invitees کو دعوت نامے جاری کئے جاتے ہیں۔ لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر، انیس سو اکاون کے روز قاتل نے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ آگے کچھ لکھنے سے پہلے میں ایک مؤدبانہ گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ سیاسی سانحوں میں ہلاک ہونے والے کو میں شہید نہیں لکھتا۔ جب تک آپ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے مارے نہیں جاتے تب تک آپ شہید کہلانے کے حقدار نہیں ہوتے۔ اسلئے معافی کا طلبگار ہوں کہ میں نے لیاقت علی خان کے نام کیساتھ لفظ شہید نہیں لکھا۔

لیاقت علی خان کے سیاسی قتل کے حوالے سے میرے کچھ سوالات ہیں۔ لیاقت علی خان کا خطاب سننے کیلئے اہم شخصیات کو دعوت نامے کس نے جاری کئے تھے؟ میرا دوسرا سوال ہے کہ خطاب سے پہلے لیاقت علی خان کے عین سامنے بیٹھنے والے وی آئی پیز کا انتخاب کس نے کیا تھا؟ میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ وی آئی پیز کی نشستوں کا تعین کس نے کیا تھا؟ میرا چوتھا سوال ہے کہ وی آئی پیز کے درمیان عین لیاقت علی خان کے قریب ایک انجان اجنبی شخص سید اکبر یا سعید اکبر کو کس کے کہنے پر بٹھایا گیا تھا؟ میرا اگلا سوال ہے کہ سعید اکبر یا سید اکبر کے عین پیچھے بیٹھنے والے شخص کو کس کے حکم پر وہاں بٹھایا گیا تھا؟ یاد رہے کہ وی آئی پیز کی نشستوں کے پیچھے حفاظتی ارکان کو بٹھایا جاتا ہے۔ سعید اکبر یا سید اکبر نے جب لیاقت علی خان پر گولی چلائی تھی تو اسی وقت سعید اکبر کے پیچھے بیٹھے ہوئے شخص نے سعید اکبر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، اور وہ موقعٔ واردات سے غائب ہو گیا تھا۔ میرا آخری سوال یہ ہے کہ اس سانحے کی چھان بین کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ کہاں ہے؟

تازہ ترین