• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے پورے ملک اور میڈیا میں ایک نوع کا طوفان آیا ہوا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس تعیناتی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی اور اب پوری قوم یہ سوچ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے کیوں نہ آئینی طور پر اس نوع کی کسی ایکسٹینشن کی جڑ ہی کاٹ ڈالی جائے۔ اس تقرری کے فوری بعد22 ویں گریڈ کی ایک اور تعیناتی فارن سیکرٹری کی بھی ہوئی ہے مگر کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی۔

مارچ 2019ء میں سابق سیکرٹری برائے خارجہ امور جناب سہیل محمودکی تقرری عمل میں آئی تھی اوروہ اس سال 29 اکتوبر کو ریٹائر ہو گئے تھے، ان کی جگہ اٹلی میں پاکستان کے سفیر جوہر سلیم کو عبوری طور پر فارن سیکرٹری تعینات کیا گیا تھا اور یہ فیصلہ ہونا باقی تھا کہ سنیارٹی کے اصول پر ڈاکٹر اسد مجید خان کو لایا جانا چاہئے یا نہیں؟ 3 دسمبرکوبالآخر اسد مجید صاحب کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا کیوں کہ ڈاکٹر اسد مجید خان اس وقت اس ذمہ داری کیلئے سینئر موسٹ تھے اور میرٹ پر ان کا ہی استحقاق بنتا تھا اور وہ اس وقت پاکستان کے 31ویں فارن سیکرٹری ہیں۔

ڈاکٹر اسد مجید خان کی ہمارے میڈیا میں حالیہ شہرت تو شاید اس سائفر کے حوالے سے ہے جو اتنی ابھری کہ اس کی خبروں کے انبار میں ان کی اصل شخصیت دب کر رہ گئی ہے۔ یہ سائفر دراصل اس سفارتی گفتگو کے حوالے سے ہے جو امریکہ میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے اپنا تین سالہ دورانیہ مکمل کرنے کے بعد جب ان کی بلجیم میں تعیناتی عمل میں آئی تو ایک الوداعی تقریب میں ان کی امریکی انڈر سیکرٹری ڈونلڈلو سے پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات اور ان میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے ہونے والی گفتگوکو بیرونی سازش بنا کر پیش کیا گیا۔ درویش نے انہی دنوں اس حوالے سے جب ڈاکٹر اسد مجید خان سے یہ سوال کیا کہ ہمارے عمران خان صاحب آپ کے سائفر کے ساتھ کیوں کھیل رہے ہیں؟تو وہ مسکرا کر بولے کہ’’ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کے خان صاحب کس کے ساتھ نہیں کھیل رہے؟‘‘ عرض کی کہ’’ وہ کرکٹ کے ہی نہیں خطروں کے بھی کھلاڑی ہیں‘‘۔

اپنے قارئین کی آگہی کیلئے بہتر ہو گا کہ ان کی سفارتی و ذاتی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے کیونکہ درویش کا ان سے تعلق تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہے، ہم لاکالج میں اکٹھے تھے اور پھر شمالی لاہور کا تیزاب احاطہ جہاں ان کی رہائش تھی، قدیم وقتوں سے خاصا آنا جانا رہا۔ ڈاکٹر اسد مجید کا سفارتی کیریئر 34برسوں پر محیط ہے۔وہ اپنی موجودہ تعیناتی سے قبل بلجیم، لکسمبرگ اور یورپین یونین میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔اس سے قبل جیسے کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ 11 جنوری 2019ء سے وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر تعینات تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں عمران خان نے جو امریکی دورہ کیا تھا، انہوں نے اس کے انتظامات خوش اسلوبی سے کئے تھے۔ اس سے قبل وہ دفتر خارجہ میں بطور ڈی جی بھی خدمات انجام دیتے رہے۔امریکہ اوربرطانیہ کے علاوہ ان کا زیادہ وقت جاپان میں گزرا ،وہیں پر انہوں نے جاپانی زبانی سیکھنے کے ساتھ ساتھ ٹوکیو کی Kyushu یونیورسٹی سے اینٹی ڈمپنگ اکانومی میں پی ایچ ڈی بھی کی۔ وہ لاہور کی ایک یونیورسٹی سمیت بہت سی جامعات اور اداروں کے لئے ریسورس پرسن بھی ہیں۔

تعلیم کا ذکر آیا ہے تو بیان کرتے چلیں کہ ان کی اسکولنگ ڈان باسکو ہائی اسکول ریلوے روڈ کی ہے۔ ایف ایس سی دیال سنگھ کالج اور گریجویشن گورنمنٹ کالج لاہور سے کی جب کہ 1983ء میں یونیورسٹی لا کالج پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور پریکٹس کا آغاز سینئر ایڈووکیٹ رضا کاظم صاحب کے زیرِنگرانی کیا۔ سی ایس ایس میں ان کا تعلق سولہویں کامن سے ہے اور فارن سروس ہی ان کی ترجیح تھی۔

ڈاکٹر اسد مجید خان کی پیدائش 17 اگست 1963ء کی ہے، ایک خاص وجہ سے یہ تاریخ نہیں بھولتی کیوں کہ ان کے خاندان نے مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور سے تقسیم کے موقع پر لاہورکا رُخ کیا تھا ۔ڈاکٹر اسد مجید کی شادی 2000ء میں ڈاکٹر زونیرا مجید صاحبہ سے ہوئی ، ان کا ایک صاحب زادہ امریکہ میں مقیم ہے اور بیٹی شہر کی نمایاں یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے، موصوف دوستوں میں اپنی ذہانت اور بے تکلفی کے باعث پسند کئے جاتے ہیں۔

سفارت کاروں کے متعلق بالعموم یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دو گھنٹے مسلسل بولیں گے مگر مجال ہے جو کوئی بات کسی کے پلے پڑنے دیں ، درویش نے مگر کبھی ایسا محسوس نہیں کیا۔ اس لئےدعا ہے کہ وہ جناب سہیل محمود کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر جناب آغا شاہی جیسے منجھے ہوئے سفارتکار کی طرح فارن آفس میں اپنے نقوش چھوڑ کر جائیں ۔ امید ہےاقوام عالم میں پاکستان کی پہچان بہتر بنانےکے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین