• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی 75سالہ پارلیمانی تاریخ میں نریندر مودی 14ویں وزیراعظم ہیں، اگر دوبار نگراں وزیراعظم بننے والے گلزاری لال نندا کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد 15بنتی ہے۔اس حساب سے منتخب بھارتی وزرائے اعظم کی اوسط مدت5 سال4 ماہ بنتی ہے۔پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں25برس تک تو وزیراعظم کا منصب خالی رہا۔باقیماندہ 50 سال کے دوران30وزرائے اعظم آئے جن میں سے 23منتخب اور7نگراں پرائم منسٹر تھے،منتخب وزرائے اعظم میں سے کوئی ایک بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکا ۔ایک وزیراعظم تو محض 13دن تک اس عہدے پر متمکن رہے ۔ یوں پاکستان میں 23 منتخب وزرائے اعظم کی اوسط مدت دو سال دو ماہ بنتی ہے۔اب اگر تصویر کادوسرا رُخ دیکھیں تو جنرل منوج پانڈے بھارت کے 29ویں آرمی چیف ہیں یعنی وہاں بری فوج کے سربراہ کی اوسط مدت ملازمت 2سال7ماہ رہی۔ جبکہ وطن عزیز میں جنرل عاصم منیر 17ویں سپہ سالار ہیںیعنی یہاں آرمی چیفس کی اوسط مدت ملازمت4 سال8ماہ رہی۔

یہ رونا روتے ہوئے مدتیں بیت گئیں کہ عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جاتا۔ ووٹ کی پرچی کو عزت نہیں دی جاتی۔ ووٹوں سے منتخب ہوکرآنیوالے وزرائے اعظم کو کام نہیںکرنےدیاجاتا۔سازش کرکےاچھی بھلی چلتی حکومتوں کو رخصت کردیا جاتا ہے۔ 16اکتوبر 2020ء کوسابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے گوجرانوالہ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا’’جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب !آپ نے ہماری اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومت کو رخصت کردیا ‘‘۔اور اب 17 دسمبر 2022ء کو سابق وزیراعظم عمران خان نے لبرٹی چوک میں کارکنوں سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے’’ہماری چلتی ہوئی حکومت جنرل قمر جاوید باجوہ نے سازش کرکے گرائی۔‘‘اگرچہ نوازشریف کے برعکس عمران خان نے تب جنرل قمر باجوہ کا نام لیا جب وہ آرمی چیف نہیں رہے اور ریٹائر ہوکر گھر جا چکے مگر دونوں کا الزام ایک ہی ہے کہ ان کی اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومتوں کو ختم کردیا گیا۔عمران خان بتدریج یہ اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ وہ کتنے بے بس ،بے اختیار اور لاچار وزیراعظم تھے۔اظہار رائے کی آزادی کا گلہ گھونٹنے کا معاملہ ہو یا پھر سیاسی رہنمائوں کی گرفتاری کا ،وہ ان سب معاملات کا ذمہ دار اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو قرار دے رہے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ نیب کو کب کس پر کتنا دبائو ڈالنا ہے،کب چھوڑنا ہے،کب قید کرنا ہے ،یہ سب فیصلے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کیا کرتے تھے۔ہم بالکل بے بس تھے، وزیراعظم بے بس بیٹھا تھا،ذمہ داری میری تھی لیکن حکمرانی کسی اور کی تھی۔مجھے ساڑھے تین سال میں آدھی طاقت مل جاتی تو شیر شاہ سوری سے مقابلہ کرلیتا۔ہم اربوں روپے کے ٹیکس ڈیفالٹر پکڑتے تو وہ کہیں اور چلے جاتے اور چھوٹ جاتے۔عمران خان کئی بار یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ اصل اختیار کسی اور کے پاس تھااور انکے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ حالانکہ اس سے قبل جب وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان تھے تو کہا کرتے تھے کہ جو بھی فیصلہ ہے،میں ذمہ دار ہوں۔کیونکہ کوئی فیصلہ مجھ سے پوچھے بغیر نہیں ہوتا۔

حکومت میں رہتے ہوئے ان کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔انہوں نے بذات خود کئی بار یہ بات کہی کہ فوج پی ٹی آئی کے منشور کیساتھ کھڑی ہے ،جنرل قمر باجوہ جیسا جمہوریت پسند جرنیل آج تک نہیں آیا اور وہ حکومت کا بہت ساتھ دے رہے ہیں۔عمران خان یہ گلہ کرنے والے پہلے سربراہ حکومت نہیں بلکہ قیام پاکستان سے اب تک برسراقتدا ر آنے والے 23 وزرائے اعظم میں یہی قدر مشترک ہے کہ ان سب کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سچا پیار نہیں ملا۔لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایوانِ وزیراعظم کی کھڑکی سے راولپنڈی کا تعاقب کرنیوالی محبت بھری نگاہیں اور دلفریب ادائیںاقتدار سے محروم ہوتے ہی سر دآہوں اور اداس راہوں میں کیوں بدل جاتی ہیں؟ شیروانی زیب تن کئےوزیراعظم کوخاکی وردی میں ملبوس شخص سابق ہوتے ہی رقیب کیوں محسوس ہونے لگتا ہے؟وہ جو یک جان دوقالب ہوا کرتے ہیں،ایک دوسرے کے حلیف سخن ساز دکھائی دیتے ہیں ،وقت بدلتے ہی حریف دشنام طراز کیوں ہوجاتے ہیں؟

حکومت میں جو شخص چارہ سا ز ا و ر کا ر سا ز دکھائی دیتا ہے،اپوزیشن میں وہی بندہ خاکی بدلحاظ اور بے نیاز کیوں نظر آتا ہے؟کیا حکمرانی کی عقل چوس کرسی پر بیٹھتے ہی دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا پھراقتدار کے نشے میں بصیرت اور بصارت دونوں جاتی رہتی ہیں؟ سربراہان حکومت اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر منافقت ،دروغ گوئی اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنے گناہوں کی عیب پوشی کرتے ہوئے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئےبعد میں اس طرح کی جھوٹی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں؟آخر اس طرزعمل کی کیاوضاحت پیش کی جاسکتی ہے کہ آخری دن تک راوی چین ہی چین لکھتا ہے،عسکری ادارے اپنی پوزیشن واضح کریں یا نہ کریں لیکن حکومت یہی تاثر دیتی ہے کہ اسے قومی سلامتی کے اداروں کی بھرپور تائید وحمایت اور پشت پناہی حاصل ہے مگر اقتدار مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسل جانے کے بعد یوںچی گویرا بن جاتے ہیں جیسے شیر خوار بچے چوسنی منہ سے نکل جانے پر کلبلاتے ہیں۔اگرہر وزیراعظم یہی دہائی دیتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کام نہیں کرنے دیتی،مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی ،سازشیں کی جاتیں ہیں اور حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہونگے۔’’صادق و امین‘‘ وزیر اعظم کی باتوں کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے؟لیکن وہ کب جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں ،جب اقتدار میں ہوتے ہیں تب یا جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تب؟اور آخری سوال یہ کہ آج تک کسی لاچار،بے بس اور بے اختیار وزیراعظم نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا؟کٹھ پتلی بن کر اس وقت تک اقتدار سے چپکے کیوں رہتے ہیں جب تک ان کی تشریف پر ٹھوکر مارکر وزیراعظم آفس سے نکال نہیں دیا جاتا؟

تازہ ترین