• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاست اس وقت مکمل طور پر دو حصوں میں منقسم ہے، ایک طرف واضح بیانیہ ہے تو دوسری طرف مکمل ابہام۔ ایک طرف الیکشن کا مطالبہ ہے تو دوسری طرف الیکشن سے راہ فرار۔ایک طرف واضح قیادت ہے تو دوسری طرف بیرون ملک سے قیادت کی آمد کا انتظار۔ ایک جماعت کے کارکنان واضح دوٹوک موقف رکھتے ہیں اور بڑی دلیری کے ساتھ اپنی جماعت کا بیانیہ لیکر گلی گلی گھوم رہے ہیں،دوسری طرف ''بھان متی کا کنبہ'' ہے جس کی صف اول کی قیادت سے لیکر یونین کونسل سطح تک کے کارکنان کے پاس نہ کوئی بیانیہ ہے اور نہ ہی عوام کے سوالات کا جواب۔ جی ہاں میں عمران خان اور پی ڈی ایم کی بات کر رہا ہوں۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک واضح موقف کیساتھ عوام میں موضوع بحث ہیں جبکہ دوسری طرف پی ڈی ایم کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نون محض ہوائی باتوں سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔عمران خان کے پاس کرپشن کے خلاف ٹھوس بیانیہ ہےجبکہ پی ڈی ایم کے پاس محض وضاحتیں ہیں۔عمران خان کے معاشی فیصلوں کا بوجھ پی ڈی ایم نے اپنے کندھے پر لاد لیا ہے اور مسلم لیگ نون اس بوجھ تلے خود ہی دبی جا رہی ہے۔عمران خان نے بڑی مہارت سے مہنگائی کو ایک قومی ایشو کے طور پر قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے جبکہ مسلم لیگ نون کے پاس مہنگائی کی لہر کا مقابلہ کرنے کا کوئی بندوبست موجود نہیں۔ڈالر ملک سے ناپید ہو چکا ہے اور اسحاق ڈار کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں۔عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں ریکارڈ حد تک گر گئی ہیں لیکن شہباز حکومت محدود ریلیف دے کر عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔الغرض ایک طرف مکمل وضاحت ہے اور دوسری طرف مکمل ابہام ہے۔الیکشن مہم کی قیادت کی بات کریں تو تحریک انصاف کے پاس عمران خان کی صورت میں ایک متحرک شخصیت موجود ہے جو ’’پری الیکشن ‘‘ میں ملک بھر میں 50 سے زائد جلسے پہلے ہی کر چکی ہے جبکہ مسلم لیگ نون کا سارا انحصار میاں محمد نواز شریف کی پاکستان آمد پر ہے۔ان کی ساری حکمت عملی’’اگر اور مگر‘‘ کے گرد گھوم رہی ہےاور اس پر مستزاد مہنگائی,جس نے عام آدمی کو مسلم لیگ نون سے بہت دور کر دیا ہے۔ یہی تفاوت آئندہ انتخابی مہم میں بھی واضح طور پر نظر آئے گا۔اس وقت عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ وہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے ملک کو آئندہ انتخابات کی طرف لے جائیں کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس وقت ملک میں وہی سب سے مقبول لیڈر ہیں اور آئندہ انتخابات میں وہ بھرپور کامیابی کی امید رکھتے ہیں۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عمران خان کا رویہ مجموعی طور پر اطمینان بخش ہے تاہم جنرل باجوہ کے حوالے سے ان کی گفتگو نے چوہدری پرویزالٰہی سمیت بہت سے حلقوں کو مضطرب کیا ہے۔حالات و واقعات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ قسمت کی دیوی اس مرتبہ پھر ان پر مہربان ہے۔ان کی الٹی چال بھی سیدھی پڑ رہی ہےاور حقیقت میں وہ ایک’’ ون مین آرمی‘‘ کا روپ دھار چکے ہیں،پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں،اینکرز کی بہت بڑی تعداد،اور میڈیا کا بہت بڑا حصہ عمران خان کی مخالف صف میں کھڑا ہے،دن رات مختلف حوالوں سے انہیں متنازع بنانے کی بھرپور کوشش بھی کی جارہی ہے،توشہ خانہ جیسے کئی مقدمات بنائے بھی گئے لیکن یہ ساری کاوشیں عوامی رائے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکیں بلکہ ان کے ووٹرز ان کے ساتھ مزید مستحکم ہوکر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ٹویٹر،فیس بک اور انسٹاگرام پر مصروف رہنے والے نوجوان ووٹ ڈالنے کیلئےبے تاب ہیں۔نوجوانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کیخلاف سازش ہوئی ہے۔ان کی کامیاب حکمت عملی کی بدولت عمران مخالف بیانیہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکا۔عمران خان کی ٹیم میں فواد چوہدری انتہائی مؤثر انداز میں ان کے بیانیے کی ترویج و تشریح کرتے ہیں اور وہ عمران خان کے ہر بیان کو ان کی منشا کے عین مطابق عوام کے سامنے پہنچانے میں مہارت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک عمران خان کے بیانیے میں کسی نوعیت کا کوئی ابہام نہیں۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے انتخابات کا میدان سجنے کو ہے،طبل جنگ بجنے والا ہے،صف بندیاں جاری ہیں،یہ ایک طرف تو اعصاب کی جنگ ہے،تو دوسری طرف ذرائع ابلاغ کی،عوامی حمایت کے میدان میں میاں نواز شریف کے علاوہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو عمران خان کی مقبولیت کو چیلنج کر سکے میاں شہباز شریف کے وزارت عظمی کے منصب پر براجمان ہونے کی خواہش نے مسلم لیگ ن جیسی ملک گیر جماعت کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حالت اور بھی پتلی ہے ، ان کے اکثر ووٹرز تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں، ان کی مرکزی صوبائی اور ضلعی تنظیمیں مسلسل روبہ زوال ہیں۔ صوبہ پنجاب آصف علی زرداری کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔

انہوں نے مصطفی نواز کھوکھر جیسے پڑھے لکھے روشن خیال اور دبنگ رہنما سے جس انداز میں استعفیٰ لیا وہ جمہوری رویوں کےبالکل برعکس ہے اور یہی رویہ پیپلز پارٹی کا سیاسی خاتمہ کر رہا ہے۔ کوئی سیاسی طاقت ایسی نہیں جو اس وقت عمران خان کی راہ میں حائل ہو سکے اگرچہ پاکستانی سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی لیکن فی الوقت تو ایسے ہی لگ رہا ہے کہ’’جیسے عمران آرہا‘‘ ہے۔

تازہ ترین