• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ اور بھارت کے بڑھتےہوئے دفاعی تعلقات کہنے کو تو ملکوں کا داخلی معاملہ ہیں لیکن بات جب پورے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑنے اور پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑنے کی ہو تو پاکستان کو حق پہنچتا ہے کہ وہ امریکہ کو ستر سالہ باہمی ’’دوستی‘‘ کے نشیب و فراز کے علاوہ اس خطے کے سٹرٹیجک مفادت یاد دلائے۔جمعرات کو پاکستان نے اس وقت یہی کیا جب مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں ایک پریس بریفنگ کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی واشنگٹن یاترا کے حوالے سے امریکہ کی بھارت پر فوجی مقاصد کے لئے نوازشات کی بارش اور پاکستان سے دفاعی امور میں امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا انہوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے ماضی کے تلخ حقائق و واقعات تو نہیں گنوائے مگر یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ امریکہ مطلب پرست دوست ہے ضرورت پڑے تو ہمارے پاس آ جاتا ہے کام نکل جائے تو پوچھتا تک نہیں اپنا رویہ بدل لیتا ہے ہماری سکیورٹی کو اتنی اہمیت نہیں دیتا جتنی دینی چاہئے پاک امریکہ تعلقات میں حالیہ ہفتوں میں پیدا ہونے والے تنائو کے پس منظر میں امریکی صدر کے مشیر پیٹر لوائے اور افغانستان میں خصوصی نمائندہ رچرڈ اولسن پر مشتمل امریکی وفد کے دورہ اسلام آباد کے بارے میں مشیر خارجہ نے بتایا کہ ان سے تمام معاملات پر بات چیت ہو گی خاص طور پر نوشکی ڈرون حملے سے پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کا مسئلہ اٹھایا جائے گا اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں بھی قررداد پیش کی جائے گی انہوں نے کہا کہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے لئے سفارت کاری کا عمل تیز کیاجا رہا ہے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں مگر اس نے پٹھانکوٹ واقعہ کی آڑ میں اسے معطل کر دیا حالانکہ خود تسلیم کر چکا ہے کہ اس میں پاکستان ملوث نہیں اس تاریخی حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ پاکستان نے سوویت یونین جیسی اپنے وقت کی ایک سپر پاور ہمسایہ قوت کو نظر انداز کر کے سات سمندر پار امریکہ سے دوستی کا ہاتھ تھاما وقتی طور پر امریکہ نے بھی یہی تاثر دیا کہ وہ روس نوازی کی وجہ سے بھارت سے ناراض ہے مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا اور اصلی تنازع ہے سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کو حق خود اردایت دلانے کے حق میں متفقہ قرار داد منظور کی مگر کشمیری عوام آج بھی اس حق سے محروم ہیں امریکہ نے اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اسے دو طرفہ معاملہ قرار دے کر ایک طرف ہو گیا ہے۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں خاموشی سے پاکستان کو دو لخت ہوتے دیکھتا رہا۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کر لئے۔ پاکستان نے کرنا چاہے تو آخری وقت تک اسے روکنے کے لئے دبائو ڈالتا رہا۔ بھارت نے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے اس کے باوجود امریکہ نے اسے نیو کلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بنانے کی حمایت کردی نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا جس کے نتیجے میں اسے 60ہزار انسانی جانوں اور سوا کھرب ڈالر کی مالی قربانی دینا پڑی، پاکستان کے بار بار کے احتجاج کے باوجود اس نے ہماری سر زمین پر ڈرون حملے جاری رکھے۔ اس سے افغان امن عمل رک گیا جس کی بنیاد ہی پاکستان نے ڈالی تھی۔ اب وہ پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائو۔ ساتھ ہی حقانی نیٹ ورک پرحملوں کا مطالبہ کر رہا ہے جو پہلے ہی آپریشن ضرب عضب کی زد میں ہے جبکہ چین نے پاکستان سے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ڈرون حملوں کی مذمت کی ہے اور امریکہ سمیت عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرے۔ ان حالات میں سرتاج عزیز کا یہ کہنا درست ہے کہ امریکہ سے تعلقات اب غور طلب ہیں۔ پاکستان کو اپنی سست رو خارجہ پالیسی کو متحرک کرنا چاہئے تاکہ اپنے بین الاقوامی مفادات کا تحفظ کر سکے۔
تازہ ترین