• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اور سالانہ بجٹ اور اس کے صفحات دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں، ہمیں ایک بات پیہم بتائی جارہی ہے کہ یہ ترقی غریبوں کے حق میں بہتر ہے اور اس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا۔ امسال بھی اسی رسمی کارروائی کا تسلسل دیکھنے میں آیا۔ حکومت کادعویٰ ہے کہ وہ عام آدمی کے حقوق کی محافظ ہے ، تو دوسری طرف اپوزیشن اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے خود کو عوام کا نجات دہندہ قرار دیتی ہے ۔لیکن اس فصاحت وبلاغت کو ایک طرف رکھیں، کیا عملی طور پر حکومت اور اپوزیشن، دونوں عام آدمی کے لئے کچھ کرتی دکھائی دیتی ہیں؟
ایک عام آدمی وہ ہے جو کسی گھر میں ملازمت سے لے کر اسی طرح کے دیگر کام کرتا ہے۔اس کی بیو ی بھی کہیں ملازمہ ہوتی ہے ۔ ان کو بچےا سکول جاتے ہیں اور وہ بھی شاید شام کو کام میں والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔آپ اسے عام آدمی نمبر ایک قرار دیتے ہیں۔ یہ بمشکل ہی اپنی زندگی کی گاڑی دھکیلنے کے قابل ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ اسے کینسر ہو گیا اور تشخیص سے پتہ چلا کہ یہ کینسر دوسرے درجے کا ہے۔ ایک ان پڑھ آدمی جو بمشکل اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کر پاتا ہے ،وہ پریشان ہے کہ اب وہ کام کیسے کرے گا۔اسے صرف اپنی موجودہ آمدنی میں کمی کی فکر ہے ۔ تاہم اسے یہ نہیں پتہ کہ وہ جس بیماری میں مبتلا ہے، اب اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ابھی اسے اس بیماری کے علاج ، خرچہ،آ مدنی کی کمی اور خاندان کے مسائل کا تصور نہیں ۔
ایک اور عام آدمی ہے جسے آپ عام آدمی نمبر دو کہہ سکتے ہیں۔اس کی زندگی بھی عام آدمی نمبر ایک سے مختلف نہیں ۔ تاہم اسکی عمر زیادہ ہے اور اس کے چار بچے ہیں ۔ اس کا بڑا بیٹا کام کرتا اور خاندان کی کفالت کرتا ہے۔تاہم اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی پولیو کی وجہ سے معذور ہیں اور چل نہیں سکتے۔ایک چھوٹا بیٹا ذہنی طور پر معذور ہے۔ اس عام آدمی نمبر دو کا اصرار ہے کہ اس نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے تھے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔علاج کے محدود ذرائع ہونے کی وجہ سے اس کے بچوں کے جسمانی طور پر بحال ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔گزشتہ ماہ رمضان میں کسی نیک دل آدمی نے اس کو ایک وہیل چیئر دے دی تاکہ وہ لڑکا اس پر حرکت کر سکے ۔ تاہم اسے یہ وہیل چیئر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے دیوار پر نشان پڑ جاتے ہیں اور مالک مکان ناراض ہوتا ہے۔اب یہ وہیل چیئر مالک کے گھر کے باہر پڑی دکھائی دیتی ہے۔اس معذور لڑکے نے ایک دن کسی امیر آدمی کے کتے کو الیکٹرک وہیل چیئر پر جاتے دیکھا تھا ۔وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی ایک الیکٹرک وہیل چیئر مل جائے ۔ لیکن اسے ایک نہیں، دو وہیل چیئرز چاہئیں ۔ ایک اپنے لئے اور ایک اپنی بہن کے لئے۔ عام آدمی نمبر دو کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے کررہا ہے۔ شوہر اور بیوی اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے باوجود سخت محنت کرتے ہیں ۔ نہ وہ خود مانگتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو مانگنے دیتے ہیں۔انہیں سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ جب وہ مر جائیں گے تو ان کے بچوں کا کیا ہو گا۔
ایک اور عام آدمی ہے، آپ اسے عام آدمی نمبر تین کہہ لیں۔ وہ ایک بوڑھا سرکاری ملازم ہے جو کئی سال قبل ملازمت سے ریٹائرہوچکا ہے ۔ اب اس کا پنشن پر گزارہ ہے ۔ اس کی عمر ساٹھ سال سے کچھ زیادہ ہے ، جسمانی طور پر کمزورہے ، لیکن اُسے اپنے بچو ں اور پوتوں کے لئے ابھی بھی تشویش لاحق رہتی ہے ۔ وہ کسی دفتر میں کام کرتا تھا لیکن اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُسے چین کی زندگی میسر نہیں۔ اب وہ اپنے بچوں کو وہ سہولتیں فراہم کرنے ، جو اُ س کے پاس نہیں تھیں، بارہ گھنٹے تک بطور چوکیدار اپنے فرائض سرانجام دیتاہے ۔ اُس کی بیوی فوت ہوچکی ہے ، اور اُس کی اپنی ضروریات بہت محدود ہیں۔ وہ کسی بیرونی ملک جا کر پیسہ کمانے کی خواہش رکھتا تھا، لیکن اس میں کامیاب نہ ہوا۔ اُس نے اپنی بیٹی کے لئے ایک گھر بنایا۔ اُس کا داماد ایک عارضی بنیادوں پرملنے والی سرکاری ملازمت کرتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی بھی کار میں سفرکرے، اس کے بچے اسکول جائیں اور بیمار پڑنے پر وہ اچھے اسپتالوں میں علاج کی استطاعت رکھتے ہوں ۔ تاہم یہ سب خواہشات ہیں، اُنہیں یہ سہولتیں میسر نہیں۔
ان ’’تین افراد، تین کہانیوں‘‘ میں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں کے غریب گھرانوں کی یہ معمول کی زندگی ہے ، بلکہ آپ کریدیں تو اس سے کہیں خوفناک اور دل ہلا دینے والی غربت اور پسماندگی کی کہانیاں سننے کو ملیںگی۔ سوال یہ ہے کہ بجٹ 2016کا ان عام افراد سے کیا تعلق ہے ؟ہوسکتا ہے کہ عام آدمی نمبر تین کی پنشن میں کچھ اضافہ ہوجائے لیکن یہ بجٹ عام آدمی نمبر ایک اور نمبر دو کو کوئی ریلیف نہیں پہنچاتا۔ کیا وہ اس بجٹ کااس لئے خیر مقدم کریں کہ اب اُن کی تنخواہ تیرہ ہزار سے بڑھ کر چودہ ہزار ہوگئی ہے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عام آدمی کی زندگی دنیا کے دیگر عام آدمیوں سے مختلف نہیں۔ زندگی کا سلسلہ جار ی رکھنے کے لئے اُس کی کچھ ضروریات ہیں جو پور ی ہونی چاہئیں۔ سب سے پہلے تو اسے جان کا تحفظ درکار ہے ۔ جب وہ بچپن کی حدود سے آگے بڑھا تھا تو اُسے تعلیم چاہئے تھی۔ جوان ہونے پر اُسے ملازمت درکار تھی۔ شاد ی کے بعد اُسے اپنے خاندان کی کفالت کرنی ہوتی ہے ۔ اس خاندان میں اس کے بیو ی بچوں کے علاوہ معمر والدین بھی شامل ہوتے ہیں۔ اُسے اپنے بڑھاپے کے لئے بھی سوشل سیکورٹی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
پاکستان کے عام آدمی خلیج اور مغربی ممالک میں ملازمت کرنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور اسے کنٹرول کرنے والی اشرافیہ نے عام آدمی کو بامعانی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا ہے ۔ کسی بیرونی ملک میں ملازمت کرنے سے اُسے امیدکی کرن دکھائی دیتی ہے کہ وہ کچھ پیسے جمع کرکے معقول زندگی بسر کرلے گا، لیکن پاکستانی ریاست اُس سے یہ وعدہ نہیں کرتی۔ گلوبل سلیوری انڈکس 2015 کے مطابق پاکستان دنیا میں اُن ممالک کی فہرست میں تیسرے درجے پر ہے جہاں کے شہری کسی نہ کسی طور پر غلامی کے بندھن میں جکڑے ہوتے ہیں۔ ہم یہ کہہ کرخود کو مطمئن کرسکتے ہیں کہ یہ سروے دراصل مغرب کی شیطانی طاقتوں کی طرف سے اس اسلامی جمہوریہ کو بدنام کرنے کی سازش ہے، لیکن کیا ہم اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ہمارے ہاں دولت مند اور غریب افراد کے درمیان کوئی قانونی مساوات نہیں ہے ؟کیا اس ریاست میں کوئی طاقت غریب کی پرسان ِحال ہے؟کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان میں پیدا ہونے کو بدقسمتی سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سماج اور معاشی طور پر ترقی کرنے کے مواقع میسر نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ باصلاحیت ہوں لیکن زندگی بھر کی مشقت کے بعد آپ ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ پائیں۔ آئین آپ کو حقوق دیتا ہے لیکن قانون آپ کو تحفظ دینے میں ناکام رہتا ہے ۔
پاکستان کا شہری سماج اس وقت تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار اس لئے نہیں ہوا کیونکہ ہم پرائیویٹ طور پر دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے افراد ہیں۔یقینا نجی طور پر لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، لیکن ریاست غریب افراد کی ترقی کے لئے مواقع پیش کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔ اس طرح کی ریاست اور معاشرہ کب تک اپنا جواز فراہم کرسکتے ہیں ؟ عام آدمی نمبرایک ، دو اور تین کو بجٹ سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس میں ان کے لئے کچھ نہیں۔
تازہ ترین