• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فریب ایک ذ ہنی کیفیت کانام ہے ۔ دھوکا برے ارادوں سے بچھائے گئے جال کو کہہ لیں لیکن دونوں کے درمیان ایک قدرِ مشترک ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر پاکستان میں جہاں ہم کبھی ایک کے نرغے میں آجاتے ہیں، کبھی دوسرے کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں ۔ اس کی وجوہات کو سمجھنا اگر آسان نہیں تو نظر انداز کرنا اور بھی دشوار ہے ۔

فریب کاری ہر پاکستانی کی ’’ نمایاں صلاحیت ‘‘ بن چکی ہے بلکہ یہ خوبی اس کی سرشت میں شامل ہے ۔ ہم سوچ کے بحران کا شکار ہیں۔ شاید ہم سوچتے زیادہ اور کام کم کرتے ہیں اور بس کھانے پینے کو ہی زندگی سمجھ لیتے ہیں ۔ مفروضوں کے سنگ وخشت سے بنے محلات میں ہمارا قیام ہے ۔ خوش فہمی کے پہاڑ تراش کر طلسمی دنیا تعمیر کرتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ اوہام ایک جیتی جاگتی حقیقت بنے ہمیں گھور رہے ہوتے ہیں ۔ جب کبھی ہم ان سے دور جانا چاہیں تو یہ راستہ نہیں دیتے ۔ منت سماجت بھی کام نہیں آتی ۔

یہ وہ مقام ہے جہاں فریب اور دھوکے کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ ذہن کی ان دو حالتوں کے درمیان خود ساختہ عقائد کی سرزمین میں ہماری برائے نام عقل کے ادھر اُدھر لڑھکتے سنگ ریزے پائے جاتے ہیں ۔ اسی دنیا میں ہماری موہوم اخلاقیات کی باقیات اور ہماری دم توڑتی ہوئی روحانی خواہشات کے مقابر ہیں ۔ ہر کوئی اس قدر تیزی سے گراوٹ کا شکار ہورہا ہے کہ اس کی پیمائش کیلئےشاید ہی کوئی پیمانہ کام آسکے ۔ یہ غلط فہمی مزید پختہ ہوتی جارہی ہے کہ ہم مستقبل میں طاقت، عقل اور ذہانت کا مکمل نمونہ بن کر دنیا کے سامنے ابھریں گے اور ہماراپرچم دنیا میں ہر طرف لہرا رہا ہوگا۔

اس ہمہ گیر خوش فہمی کی دھند میں ہم اپنی حقیقت اور سچائی تخلیق کرتے رہتے ہیں ۔ فریب اور دھوکے کے دہرے نشے سے اتنے گھائل ہیں کہ ہم اپنے بنیادی اخلاق کو بھی ان سے بچانے کی زحمت نہیں کرتے ۔ مختلف اوقات میں ہر ممکنہ کوشش کی گئی کہ قائد کے پہلی دستور ساز اسمبلی سے کئے گئے تاریخی خطاب کو متنازع بنادیا جائے ۔ ایک نچلے گریڈ کے سرکاری افسر نے اس کے متن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تاکہ قائم ہونے والی حکومتوں کی رجعت پسندی کے ساتھ قائد کی فکر کو ہم آہنگ ثابت کیا جاسکے ۔ اس کوشش کے بعد اس نے قائد کے اس خطاب کو قومی آرکائیو ز کے دفینے میں اس امید پر گم کر دیا کہ اب یہ دوبارہ کبھی بازیاب نہیں ہوسکے گا۔ ضیا کے جابرانہ تسلط نے ایک اور کوشش کی کہ یہ ملک کی بھولی بسری تاریخ کا حصہ بنا رہے لیکن یہ تقریر کسی نہ کسی طریقے سے سامنے آتی اور ملک کو بانیان پاکستان کے تصور کے برعکس رجعت پسندی کی طرف لے جانے والوں کے اعصاب پر سوار رہی ۔ تاہم ملک کے قیام کے حقیقی مقصد کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جاچکی تھیں۔

نوزائیدہ ریاست پر اجنبی سوچ مسلط کرنے کی مذموم کوشش صرف قائد کی 11 اگست کی تقریر کے مندرجات مسخ کرنے تک محدود نہیں تھی، ان کے تینوں اصولوں کو بھی تبدیل کردیا گیا۔ پہلے ان کے الفاظ ’’اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط‘‘ کی ترتیب کو تبدیل کرکے ’’ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط‘‘ بنا دیا گیا ۔ ضیا دور میں ملک میں وسیع پیمانے پر رجعت کے ظہور اور اس کے ارتکاب کی مناسبت سے جزوی لفظ کے معنی بھی بدل دیئے گئے۔ قائد نے زندگی میں آنے والی مشکلات پر قابو پانے کیلئے اپنی ذات اور اپنی فطری صلاحیتوں پر اعتماد رکھنے کے تناظر میں لفظ یقین استعمال کیا تھا، اس کی بجائے اسے مذہبی معنی دئیےگئے۔ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہم قائد کے قول کی ایک غلط ترتیب اور اس کے ساتھ غلط مذہبی ضمیمہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ہم عجیب لوگ ہیں۔ ہم ملک کی لبرل اخلاقیات کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔ اندھیرے میں چھپے طاقتور سایوں کے زیر اثر اس ملک کی جمہوری اسناد کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ ہم عقیدے کی آزادی کو پرامن بقائے باہمی کے دائمی اصول کے طور پر قبول کرنے سے بدکتے ہیں۔ یہ بات ہمیں ہضم نہیں ہوتی کہ عوام ہی اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ ہم انفرادی آزادی کو انسانی وقار کا بنیادی موضوع تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہم انسانوں کو پہچانتے نہیں۔اس کی بجائے ہم بنی نوع انسان کو ایسی مخلوق بنانا چاہتے ہیں جو دنیا کے وہم و گمان میں بھی نہیں ۔ اس پر ہمارا دعویٰ یہ کہ دنیا ہم سے رہنما ئی لے ۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں انصاف نہیں ملتا، جہاں ریاستی ادارے غیر فعال ہیں، جہاں سیکیورٹی ادارے اپنے ہی شہریوں کے تعاقب میں رہتے ہیں ، جہاں بدعنوانی عروج پر ہے، جہاں سیاست دان جرائم کے رسیا ہیں اور جہاں ضرورت مندوں کیلئے صحت، تعلیم اور سماجی بہبود کی کوئی سہولت نہیں۔ ایسے ماحول میں نہ تو ہم جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور نہ ہی یہ کہ ہم کیا بننا چاہتے ہیں لیکن ہمیں خوش فہمی یہ ہے کہ دنیا کی مسیحائی کا فریضہ ہم کو ہی سرانجام دینا ہے ۔ ہماری حالت یہ ہے کہ نہ ہم قدم اٹھا کر آزادی کی چوٹی سر کرسکتے ہیں، نہ خوش فہمی کی دنیا سے نکل کر حقائق کاسامنا کرسکتے ہیں ۔

یہ حالت ناقابل برداشت ہے۔ ہمیں کئی طرح کی بیماریوں سے جان چھڑانا ہوگی جو گزشتہ برسوں سے جونکوں کی طرح ہماری رگ جان سے زندگی کشید کررہی ہیں۔ خود کو دھوکا دہی اور فریب کے زہریلے عفریت سے پاک کرنے کا عمل شروع کرنا ہو گا اور پھر وہاں سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس کیلئے ہمیں اپنی التباسات سے نکل کر اپنی حدود، اپنی اوقات اور اپنی سکت کی پہچان کرنا ہوگی ۔ہم وقت کی میزان پر کھڑے ہیں ۔ جانچ سے بچنے کا وقت نہیں ۔ پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!

تازہ ترین