• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وسائل کی کمی کا مسئلہ آڑے نہیں آنا چاہئے ،ممکنہ حد تک وسائل لگاکر امن اور محفوظ مستقبل حاصل کرلیا جائے توکئی گنا وسائل پیدا ہوجائیں گے،کہہ چکاہوں 2016 پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہے، 99 فی صد قابو پالیا ہے،فاٹا کے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے غیور عوام کو اسی سال باعزت طریقے سے بہترگھروں میں آباد کرنا ہے، 56 فی صد لوگ واپس جاچکے ہیں، دہشت گردوں سے آزاد کرائے گئے قبائلی علاقوں میں جدید ٹیکنالوجی اور سہولتوں سے مزین تعلیمی ادارے اور اسپتال سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے اس کی تکمیل یقینی بناناہے، فوج نے بھاری قربانیاں دے کر امن قائم کیاہے اب ان علاقوں میں دہشت گردوں کو دوبارہ نہیں پنپنے دیں گے، مضبوط اور پرعزم لہجے میں بری فوج کے سپہ سالار مسلح افواج کے سپریم کمانڈرصدر مملکت سے مخاطب تھے،ایک موقع پر صدرنے وسائل کی کمی کا عذر پیش کرنے کی کوشش کی، توجنرل راحیل کا پیغام واضح اور صاف تھا کہ دیرپا امن کی خاطر وسائل کی عدم دستیابی کا رونا دھونا حقیقت کو ڈرائوئے خواب میں بدل سکتاہے،راقم نے جنرل راحیل سے مصافحے کےساتھ پوچھ ڈالاکہ پاناما لیکس کامعاملہ سیاسی سطح پر تو کسی ٹھکانے لگتادکھائی نہیں دے رہا اب کیا ہوگا، جس پر انہوںنے کہاکہ سب ٹھیک اور بہتر ہوجائے گا،وہ مزید کچھ وضاحت کئے آگے بڑھ گئے، اسپیکر کی چائے کی میز پر موجودہ حکومت کے جسمانی اور سیاسی طور پر مضبوط حلیف بھرپور گرم جوشی سے آگے بڑھ کر پرانے یاروں کی طرح ایسے گلے لگے ، لگا کہ جیسے مدمقابل وردی سمیت ان میں سما گئے،کئی حکومتی وزرا مشیر بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمصافحہ اور تصویر بنوانے میں کامیاب ہوئے اور بعض حکومتی اور اپوزیشن پارلیمنٹرین تو گویا جنرل راحیل کی پارلیمنٹ کے اس ہال میں آخری لمحے تک موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئےان کی باتوں کی مکمل تائید اور تعریفوں کے پل بھی باندھتے رہےجس کا ذکر ضروری نہیں، منظر بتارہاتھا ۔ جنرل راحیل نےڈرون حملوں کو ملکی خودمختاری پرحملہ اور ناقابل قبول قراردیا تاہم انہیں روکنے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا،ہم سویلینزسے پہلی مرتبہ کھلی اور بے تکلف لیکن پرعزم گفت گو پر ہم نے انہیںشکریہ کہا اوروہ خارجہ امور کے سرتاج کے ہمراہ ہال سےباہر روانہ ہوگئے،بظاہرتو صاف لگتاہے کہ پیشہ ور فوجی وطن عزیز میں جمہوری اداروں پر اعتماد کرتے ہوئے امن کی تگ و دو میں ہے۔دنیا بھر میں چیف ایگزیکٹو کی عدم موجودگی پر متبادل قیادت کا نظام موجود ہے لیکن اب جو قیادت کے بغیر ہونے سےملک جس آئینی بحران کا شکار ہے اس کے واحد ذمہ دار شاہی نظام کے فرمانروا نوازشریف ہیں، بار بار سڑکوں پر آنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہہ گئے کہ 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت فاتح ہوگی،میں نےچبھتا ہوا سوال داغا،لوگوں کاخیال ہےکہ پاناما پرہونے والے قومی اسمبلی کےاجلاس میں حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن کاشکار ہوئے،،اپنے بعض بااعتماد پارٹی رہ نمائوں کے ہاتھوں وزیراعظم کی موجودگی میں بغیر تقریر ایوان سے باہر نکالنے جانے پرافسوس یا پچھتاوا تو ہوگا؟برآمدے کی میلی ہوتی چھت پر نظریں گاڑتے ہوئے قدرے پرملال انداز میں برجستہ بولے، ہاں آصف مجھے سخت افسوس ہے، مجھےبرطانیہ اور آسٹریلیا کے بھرےہوئےگرائونڈمیں کھیل کربہت مزا آتاتھا،اس دن بھی پارلیمان کی گیلریز کی طرف اشارہ کرتےہوئے میں نے شاہ محمود قریشی سے کہاکہ آج بھرپور ایوان ہے ، آج مجھ پر آف شورکمپنی بنانے کےداغ کو لندن سے ساتھ لائے دستاویزی ثبوتوں سے دھونےکا سنہری موقع ہے، میاں صاحب کی طوطا مینا کی کہانی ختم ہوئی تو میں تقریر کے لئےاٹھا لیکن میرے اردگرد کی نشستوں سے سب لوگ اٹھ گئے،مجھےبتایاگیا کہ اپوزیشن کی کمیٹی پہلے ہی واک آوٹ کا فیصلہ کرکے آئی تھی ،خان صاحب کیا آپ کو فیصلے کا پہلے سےپتہ تھا ؟،میں نےسوال دہرایا تو عمران خان بولے کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا ،لیکن میں تقریر کرتاتو صورتحال آج بہت مختلف ہوتی ،میرے علم میںنہیں تھا، تھوڑی دیر خاموش ہوئے اور خود کومجتمع اور سمیٹ کر پھر گفتگو کاموضوع گھمادیا ،بار بار تحقیقات اور نواز حکومت کے جلد خاتمے کی دیرینہ خواہش پرمبنی دعوے اور پھر سڑکوں پر آنے کے آخری وار کی دھمکیوں کو دہراتے رہے۔ لگتاتھا، خان صاحب عوام کے دکھوں کا درد اپنے دل میں لئےہوئے حکومت کو ہرصورت اور ہر قیمت پر بے تخت اور خود کو اقتدار میں لاکر تمام ملکی امراض کا مسیحا سمجھتے ہیں،،،!
ہم سمجھتے ہیں ان کی زبان ٹھیک ہے اور نہ نیت،یہ ملکی ترقی کے تیزی سے بڑھتےہوئے سلسلے کوروکنا اورپٹری سے اتارنا چاہتے ہیں،اپنی خراب صحت اور سخت موسم کی پروا کئے مسلسل اپنے حریفوں کے صوبے میں شہر شہر جاکر ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کے وارکررہے تھے، ایک روز اپنے بھاری بھرکم حلیفوں کی ہر گرم وسرد موسم میں ساتھ دینے کی قسموں پریقین کرتے ہوئے ان کی عوامی مفاد میں دی گئی ڈیمانڈ لسٹ پر دوران پرواز سبزروشنائی والے قلم سے دستخط کے بعد جلسہ گاہ میں اترے، دوستوں کی بڑے دعوئوں پرمبنی تقاریر سننے کےبعد عوام سے مخاطب ہوئے تو پھرعدو کو للکارتے ہوئے کہاکہ یہ منہ اور مسور کی دال، استعفیٰ مانگنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکو۔وفاقی دارالحکومت واپسی کے دوران موقع سے فائدہ اٹھاکر میں نےدریافت کیا ، آپ نے استعفیٰ کا مطالبہ تو مسترد کردیا لیکن پاناما کی تحقیقات کےلئےکیاکریں گے، وزیراعظم نوازشریف نے کہا یہ تحقیقات نہیں نوازشریف کونشانہ بناکر اس کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں،کچھ قوتیں پاکستان کو اس نازک صورت حال اور خوشحالی کی راہ پر گامزن پاکستان کو ڈی ٹریک کرنا چاہتی ہیں، لیکن پہلے انہیں دھرنےمیں ناکامی ہوئی اب بھی ایسا ہوگا، میں نے قدرے مختلف انداز اور الفاظ میں سوال دہرایا تو بے اختیار دل پر ہاتھ رکھ کر بولے، استعفیٰ کسی صورت نہیں دوں گا،حکومت نہ صرف مدت پوری کرے گی۔ پروازاپنے مقام تک پہنچی لیکن میاں صاحب کی دل کی بھڑاس نکالنے کے باوجود طمانیت نہ لہجےمیں تھی نہ چہرے پر،میاں صاحب کی پریشانی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے ماضی کے اپنے دو ادوار کا ریکارڈ توڑ کرحکومت جاری رکھنا ، تین سال اور چوتھا مالی سال کا بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوجانا ۔پریشانی کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دو سال رہ گئے لیکن عوام کےمسائل ختم نہیں کرسکے، ، ڈرون حملوں سے خودمختاری کی بےتوقیری کا سلسلہ جاری ہے، بے روزگاری اور غربت بجٹ تخمینوں میں تو کم ہوئی لیکن ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے لاکھوں جوان لڑکے لڑکیاں نوکریوں کی تلاش میں مارے پھرتےہیں،عدم سرمایہ کاری اور پیسے سے پیسہ بنانے والے طبقے کا ٹیکس نیٹ میں آنے سے مسلسل انکار، 55 فی صد صحت اور 40 فی صد آبادی کو تعلیم کی بنیادی سہو لتیں نہ ملنے کے المیے کا سلسلہ دراز ہورہاہے، انتہائی پڑھے لکھے جوان دہشتگردوں کا آلہ کار بننے کو تیار ہورہے ہیں، جہاں 20 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی بجائے محض زبانی کلامی دعوے اور فائلوں کے پیٹ بھرنے کے اقدامات ہورہے ہیں،بیانیہ بدلنا تو دور کی بات اپنی سوچ کا دائرہ بھی واضح نہیں ، جہاں خارجہ پالیسی کا حال یہ ہے کہ چند ہمسائے اور دیگر ممالک جو پاکستان کے ساتھ کم از کم ہاتھ ملا لیتے تھے ان کو بھی اپنا دشمن بنایا جارہاہے، جہاں عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بننے والی لیکس کی تحقیقات کی بجائے انہیں منوں مٹی تلے دفنانے کا مل جل کر کام جاری ہے۔
تینوں بڑوں نے اپنے دل کے حال بیان کئے تو سوچا آپ سب کو بھی پس کیمرا اور پس دیوار ہونے والی گفتگو میں شریک کروں، فیصلہ یا رائے قائم کرنا آپ کا حق ہے کہ کون کیوں ، کہاں ، کیسے اور کس طرح کیا کیا جانتا، سوچتا اورچاہتاہے!
تازہ ترین