• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ آپ سب کو علم ہے کہ میرا بلوچستان کے ساتھ تعلق ایک طویل عرصے پرمحیط ہے۔ جب میںپلٹ کر ان ایّام پر نظر ڈالتا ہوں۔ جب اس صوبے کے عوام نے میرے ساتھ شانے سے شانہ ملاکر جدوجہد آزادی میں حصّہ لیا تو مجھے ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آپ نے پاکستان کے دیگر صوبوں کے بھائیوں کے مقابلے میں کچھ کم حق ادا نہیں کیا۔‘‘

یہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 4فروری 1948 کو سبّی دربار میں تقریر کا ایک اقتباس ہے۔

آج 25دسمبر ہے۔ مسیحی بھائیوں کی عید۔ اپنے ہم وطن مسیحیوں کو اور دنیا بھر میں اُردو پڑھنے والے مسیحی بھائیوں کو کرسمس مبارک ہو۔ آج یہ بر صغیر کے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش بھی ہے۔ سالگرہ مبارک کہنا تو بنتا ہے مگر کسے کہیں اشرافیہ میں سب زبانی کلامی تو اٹھتے بیٹھتے قائد اعظم کا نام ضرور لیتے ہیں لیکن قائد اعظم کے بنیادی افکار۔ مرکزی اصولوں سے انحراف ان حکمرانوں کا پیدائشی وطیرہ ہے۔ قائد اعظم کی وفاتِ حسرت آیات کے بعد انہوں نے پاکستان کے عوام کو جس طرح اپنی ذاتی خواہشوں کے حصول کی خاطر بنیادی حقوق سے محروم کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم 75سال بعد ایسے بحرانوں کا شکار ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں کی غلامی میں بھی درپیش نہیں تھے۔

آج اس عظیم رہنما کی سالگرہ پر میں قائد اعظم کی دلی خواہشوں، امنگوں اور تمنّائوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے ایک طرف مشرقی پاکستان کے عوام کی بہبود۔ سماجی۔ صنعتی۔ عسکری ترقی کے لیے ظاہر کی تھیں اور دوسری طرف بلوچستان کی مخصوص صورت حال پر بھی ان کی تشویش دہرانا چاہوں گا۔ قائداعظم کے یوم پیدائش پر ان کی مشرقی پاکستان اور بلوچستان پر خصوصی توجہ کا احساس اس لیے دلوانا چاہتا ہوں کہ بھارت جس طرح وہاں سازشوں اور تخریب کاریوں میںمصروف تھا۔ قائد اعظم کی ترجیحات کو یکسر فراموش کرکے سیاسی اور فوجی قیادتوں نے حالات اس نوبت تک پہنچادیے کہ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ بھی اقتدار کی جنگ تھی۔ اکثریت کی رائے کو اہمیت نہ دینے کا نتیجہ تھا۔ اکثریتی پارٹی کو وہ اختیار نہ دیا گیا جو وہاں کے عوام نے انہیں دیا تھا۔ اب بھی پنجاب میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ بلوچستان سے بھی قائد اعظم نے اپنی گہری محبت کا اظہار کیا تھا۔ یہاں کے عوام کی محرومیوں اور ناانصافیوں کے خاتمے کو اپنا بنیادی اصول بتایا تھا۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹے بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں سے تفصیلی ملاقات اور ان کے ذہنوںمیں تڑپتے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ آج 25دسمبر بھی ہے۔ قائد اعظم کی ولادت کا دن۔ اپنے آئندگان سے قائداعظم کی پاکستان کے لیے ترجیحات کی باتیں کریں۔ انہیں احساس دلائیں کہ اگر چہ زندگی نے انہیں زیادہ مہلت نہ دی لیکن 14 اگست1947 سے 11ستمبر 1948 کے دوران وہ اپنی تقریروں۔ ملاقاتوں۔ پیغامات میں وہ سارے اصول رہنما خطوط بتارہے تھےجن کی بنیاد پر پاکستان کا آئین آسانی سے بن سکتا تھا۔ جن کی بنا پر مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کار کی نوعیت طے کی جاسکتی تھی۔ جن کی روشنی میں پاکستانی معیشت کی رہگزر کا تعین کیا جاسکتا تھا۔

20 مارچ 1948 کو مشرقی پاکستان میں کرمی ٹولے ہوائی اڈے پر فوجی پریڈ سے خطاب میں فرمارہے ہیں۔’’ بنگال کو عام طور پر جس میں مشرقی بنگال بھی شامل ہے اور جہاں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی تھی، فوجی مقاصد کے لیے تعداد اور معیار دونوں اعتبار سے قابل توجہ نہیں گردانا تھا۔ بنگال کی عسکری صلاحیت پر تاریخ شاہد ہے۔ بالخصوص وہ کردار جو مسلمانوں نے بنگال کی تاریخ میں ادا کیا ہے۔ دیگر بہت سے اوصاف کی طرح عسکری جذبے کو کچلا گیا اور دبادیا گیا اور اس پر گویا منوںمٹی ڈال دی گئی اوریوں عسکری جذبہ ماند پڑ کر رہ گیا اور بنگال میں ہم اب اسی مقام پر جا پہنچے ہیں کہ فوجی اعتبار سے اب یہ کسی شمار میں نہیں رہا۔ آزاد اور خود مختار پاکستان میں جس کا شُمار دنیا کی عظیم ترین قوموں میں ہوگا۔ آپ کو ہر موقع حاصل ہوگا کہ آپ اپنی عسکری صلاحیت کے احیا کا اہتمام کریں اور دنیا کو دکھادیں کہ بنگال کیا کچھ کرسکتا ہے۔‘‘

اے قائد اعظم ہم شرمندہ ہیں کہ آپ کی ترجیحات کو ہم نے بھی غیر ملکی سامراجیوں کی طرح نظر انداز کردیا اور نتیجہ 16دسمبر 1971کو ایک بڑے المیے اور عبرت ناک شکست میں برآمد ہوا۔

15جون 1948 کو بلدیہ کوئٹہ کی جانب سے پیش کردہ شہری سپاسنامے کے جواب میںبانیٔ پاکستان کہہ رہے ہیں۔’’ مجھے بلوچستان کے ساتھ خصوصی دلچسپی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ بلوچستان پاکستان کے معاملات میں کسی بھی دوسرے صوبے کی طرح اپنا بھرپور کردار ادا کرے لیکن طویل عرصے تک نظر انداز رہنے کے نشانات کو مٹانے میںکچھ وقت لگے گا، اس کا انتظام کرنے کے لیے یہ عرصہ ضرورت سے ایک لمحہ بھی زیادہ نہ ہو۔ میں آپ سے مخلصانہ استدعا کرتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ تعاون کیجئے۔ مجھے اپنی بے لوث حمایت دیجئے، میرے کام کو دشوار نہ بنائیے۔ نمائندہ حکومتیں اور نمائندہ ادارے بلا شُبہ اچھے بھی ہوتے ہیں لیکن اگر لوگ انہیںذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنالیں تو یہ نہ صرف بے قدر ہوجاتے ہیں بلکہ بدنام بھی۔‘‘ اس سے دو روز پہلے کوئٹہ میں پارسی پاکستانیوں کے وفد کے سامنے انہوں نے بھرپور اعتماد سے کہا تھا۔’’ میںسمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی معدنی دولت اس کی زراعت آب رسانی اور مواصلات کے وسائل کی ترقی کے زبردست امکانات ہیں۔‘‘مشرقی پاکستان تو اپنے حقوق کے حصول کی خاطر ہم سے الگ ہوکر ہم سے آگے نکل چکا لیکن بلوچستان کے معاملے میں ہم وہی غلطیاں دہرارہے ہیں۔ سیاسی اور فوجی قیادتوں کےوہ رویے ہیں جو 1971 تک مشرقی پاکستان کے عوام کے لیے اختیار کیے گئے۔ بھارت اسی طرح سازشوں میں مصروف ہے۔ بلوچستان کو ہم عسکری۔ سیاسی۔ سماجی۔ اقتصادی طور پر نظر انداز کررہے ہیں۔

26دسمبر۔ شہر قائد کی ایک مخلص و بے لوث ہستی اور بہت ہی ذمہ دار پارلیمنٹیرین پروفیسر غفور احمد کی برسی ہے۔ پاکستان کے عوام کیلئے ان کا درد یاد آتا ہے۔ اب تو انتخابیوں کا دَور ہے۔ لوٹ مار کا عالم ہے۔ اب ایسے بے لوث اور 24گھنٹے ملک و ملت کی خدمت کے لیے مستعد قائدین کی وقعت کا کسے احساس ہے ۔ ابھی تو ان کے درجات کی بلندی کے لیے قادر مطلق کے حضور میں استدعا۔ کسی تحریر میں ان کی گرانقدر جدو جہد کو تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا۔

تازہ ترین