• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل بہت پرانا ہے ۔صدر غلام اسحاق خان نے 18اپریل 1993ء کو قومی اسمبلی تحلیل کرکے وزیراعظم نوازشریف کو گھر بھیج دیا ۔سپریم کورٹ نے صدارتی حکم نامے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بحال تو کردیا مگر صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی تھی۔سب سے بڑا صوبہ پنجاب جہاں انکے بااعتماد ساتھی غلام حیدروائیں وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے وہاں اب منظور وٹو کی حکومت تھی۔میاں اظہر کی جگہ غلام اسحاق خان اپنے دوست چوہدری الطاف حسین کو گورنر پنجاب تعینات کرچکے تھے ۔وفاق میں نوازشریف کی حکومت ختم ہوتے ہی پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (جونیجو)سے اتحاد کرلیا ،منظور وٹو نے اسمبلی بچائو کا نعرہ لگایا اور 25اپریل 1993ء کو 57ارکان کی حمایت سے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔جب نوازشریف کی حکومت بحال ہوئی تو انہوں نے تخت لاہو ر واپس لینے کی مہم جوئی کیلئے پرویز الٰہی کا انتخاب کیا۔گجرات کے چوہدری جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر سمجھے جاتے تھے چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوائوں کا رُخ بدلنے لگا۔رُت بدلتے ہی موسمی پرندے گھونسلوں میں واپس آنے لگے ۔سیاسی پنچھی نئی منڈیر پر بیٹھتے دیکھ کر منظور وٹو وہی چال چلنے کیلئے پر تولنے لگے جس کا اعلان چند روز قبل عمران خان نے کیا۔اپوزیشن بھی انکے ارادے بھانپ چکی تھی لہٰذا پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری حبیب اللہ گورائیہ کو اغواکرلیا گیا تاکہ ان سے یہ بیان دلوایا جاسکے کہ وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد آچکی ہے۔رات گئے وزیراعلیٰ پنجاب منظور وٹوکی سفارش پر گورنر چوہدری الطاف حسین نے صوبائی اسمبلی تحلیل کردی۔اس فیصلے کوہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ۔فل کورٹ بنچ میں سماعت کے دوران انکشاف ہوا کہ دونوں فریق غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور یہ طے کرنا دشوار ہے کہ عدم اعتماد کی قرارداد پہلے جمع ہوئی یا اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز پہلے دی گئی ۔بہر حال 28جون 1993ء کو لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی بحال کردی مگر عدالتی فیصلے کے چند منٹ بعد ہی گورنر نے ایک بار پھر وزیراعلیٰ کی سفارش پر صوبائی اسمبلی تحلیل کردی۔حالات و واقعات ہی نہیں کرداروں میں بھی اس قدر مشابہت و مماثلت ہے کہ موجودہ سرکس 29سال پہلے برپا کئے گئے تماشے کا ری پلے محسوس ہوتا ہے۔مثال کے طور پر جس طرح اب شہبازشریف پر یہ پھبتی کسی جاتی ہے کہ وہ محض اسلام آباد کے وزیراعظم ہیں ۔اسی طرح نوازشریف کی حکومت بحال ہونے کے بعد مولانا کوثر نیازی نے انہیں زیروپوائنٹ کا وزیراعظم قرار دیا تھا۔جس طرح موجودہ حالات میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرکے وفاقی حکومت پر انتخابات کروانے کیلئے دبائو بڑھانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اسی طرح تب بھی پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ میر افضل خان نے 30مئی کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی تھی۔جس طرح اب اتحادی حکومت میں پرویز الٰہی یوں وزیراعلیٰ بنے کہ اکثریت تحریک انصاف کے ارکان کی تھی مگر اسمبلی کا اسپیکر پی ٹی آئی کے سبطین خان کو بنوا کر وزیراعلیٰ کا عہدہ پرویز الٰہی کو دیدیا گیا ،اسی طرح تب بھی اتحادی حکومت میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد زیادہ تھی مگر حنیف رامے کو اسپیکر منتخب کروایا گیا اور وزیراعلیٰ کا منصب منظور وٹو کو پیش کردیا گیا۔تب بھی حکومت اسمبلی توڑنا چاہتی تھی جبکہ اپوزیشن اسمبلی بچانے کی کوشش کر رہی تھی اور اب بھی اسی طرح کی صورتحال درپیش ہے۔ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ جس طرح پرویز الٰہی نے 2018ء کے عام انتخابات کے دوران بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھی ،پہلے اسپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر اسمبلی کی اسی مدت کے دوران وزیراعلیٰ کا تختہ اُلٹانے کے بعد خود وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے ،اسی طرح منظور وٹو بھی 1990ء کے عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر ایک ساتھ کامیاب ہوئے تھے مگر انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر بن گئے۔بعدازاںوزیراعلیٰ کو گھر بھیج کر اسی اسمبلی کے ذریعے خود وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔چوہدری الطاف حسین جو تب گورنر تھے ،ان کے بیٹے فرخ الطاف اور بھتیجے فواد چوہدری پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رُکن ہیں ۔ ان سے پہلے گورنر کے عہدے پر متمکن میاں اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر بھی پی ٹی آئی کے رہنما ہیں ۔تب پنجاب اسمبلی تحلیل کئے جانے کے بعد پرویز الٰہی نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو ان کی وکالت ایس ایم ظفر کر رہے تھے جبکہ اب عدالت میں ان کی نمائندگی ایس ایم ظفر کے بیٹے علی ظفر ایڈوکیٹ نے کی۔جس طرح موجودہ وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب کے ذریعے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرکے پنجاب کا انتظام سنبھالنے کی کوشش کی ،اسی طرح تب نوازشریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قرارداد منظور کروانے کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہنگامی حالت نافذ کرکے میاں اظہر کو بطورایڈمنسٹریٹر صوبے کا کنٹرول سنبھالنے کا حکم دیا مگر یہ کوشش ناکام رہی۔اب بھی وفاقی حکومت کو ایوان صدر میں بیٹھی شخصیت کی طرف سے پریشانی کا سامنا ہے اور تب بھی غلام اسحاق خان کی صورت میں متحارب صدر کا سامنا تھا۔یہ لڑائی چلتی رہی ،یہا ں تک کہ صدر اور وزیراعظم دونوں کوکاکڑ فارمولے کے تحت جانا پڑا۔نئے گورنر راجہ سروپ خان نے منظور وٹو کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا مگر وہ ناکام ہوگئے۔اب بھی پرویز الٰہی کو گورنر بلیغ الرحمان کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا گیا ہے۔یوں لگتا ہے ہم مسلسل دائروں میں گھوم رہے ہیں ۔عاطف توقیر نے اپنی نظم ’’دائرہ ‘‘میں ان حالات کی کیا خوب عکاسی کی ہے:

دائرہ زدہ لوگو!

دائروں کی قسمت میں منزلیں نہیں ہوتیں

سرنگوں مسافت میں راستے تو ہوتے ہیں، خستگی بھی ہوتی ہے

طے ہوئے تماشے کا اِک خیال پیہم بھی

پرہٹائو جوں کا توں اور کٹائو جوں کا توں

ورزشی مشینوں پر دوڑتے ہوئے لوگو!

تھک کے بیٹھ جائو گے

اور پھر نیا کوئی بے جہت مسافر اس دائرے میں گھومے گا

تازہ ترین