• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیکھا جائے تو 8ماہ سے ہم 22کروڑ بغض عمران اور حب عمران کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

وفاقی دارُالحکومت میں ایک حکومت ہے جو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین اور قانون کے مطابق اس کیلئےحکم دیا۔ پھر قومی اسمبلی میں باقاعدہ تحریک پیش کی گئی۔ ووٹنگ ہوئی۔ ہر چند اس سے پہلے ارکان اسمبلی کے جوڑ توڑ ہوئے۔ خرید و فروخت کے الزامات عائد کئے گئے۔

اس حکومت کے وزیر اعظم اور وزراء بہت تجربہ کار۔ جہاندیدہ۔ سرد و گرم چشیدہ بتائے جاتے ہیں۔ گزشتہ 34سال کے دوران کسی نہ کسی سرکاری محکمے کے سربراہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم ،پنجاب کے دو بار با اختیار وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان کے اپنے احباب میڈیا پران کی کامیابیوں کی داستانیں بیان کرتے رہے ہیں اور جب یہ لوگ تحریک عدم اعتماد کیلئے کوشش کررہے تھے تو ملک کے حالات ان کے سامنے تھے۔ کورونا نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ کئی کمپنیاں ڈوب گئی تھیں۔ کئی کارخانے بند ہوگئے تھے۔ امریکہ۔ برطانیہ۔ روس۔ چین جیسے ترقی یافتہ ممالک اقتصادی بحران سے دوچار تھے۔ پاکستان تو اس اعلیٰ اقتصادی سطح پر بھی نہیں تھا۔ یہاں حکمرانی ہمیشہ ہی مشکل کام رہی ہے۔ ہمیشہ سے غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار کی ریت ڈال دی گئی ہے۔ کامیاب وزیر خزانہ وہی سمجھا جاتا ہے جو عالمی بینک سے، آئی ایم ایف سے قرضے لے سکے۔ اپنے قدرتی اور معدنی وسائل کی دریافت۔ اپنی فصلوں پر بھروسہ۔ اپنے جفاکش ہم وطنوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی پالیسی ہی نہیں رہی ہے۔ پہلے ہمارے دفاعی اخراجات بجٹ کا بڑا حصّہ ہوتے تھے۔ اب قرضوں کی ادائیگی سر فہرست ہے۔

ایسے میں جب حکومت بدلتی ہے انتخاب کے ذریعے یا تحریک عدم اعتماد سے، تو وہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے شوق میں تخت پر بیٹھ تو جاتی ہے مگر پھر وہ کہتی ہے خزانہ خالی ہے۔ گزشتہ 20سال کا ملبہ ایک ماہ میں تو نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس میں وہ اپنا وقت گزار دیتی ہے۔ حالانکہ پارلیمانی نظام میں تو اپوزیشن معیشت سمیت ہر محکمے میں کارکردگی کا روزانہ جائزہ لے کر اپنی تیاری جاری رکھتی ہے۔ اس کے علم میں ہوتا ہے کہ روپے کی قدر کیا ہے۔ مہنگائی کی شرح کیا ہے۔ قرضے کتنے ہیں۔ سود کتنا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں۔ انہی اعداد و شُمار کی نسبت سے آنے والے حکمرانوں کو اپنی حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنا۔ عوام کو سہولتیں فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔

چاہے وہ وزیر اعظم شہباز شریف کہہ رہے ہوں یا چار سال پہلے وزیر اعظم عمران خان کہ ہم کو آنے سے پہلے پتہ نہیں تھا کہ ملکی خزانہ خالی ہے یا معیشت ڈانواڈول ہے۔ عوام کو اس سے غرض نہیں ہے۔ نہ یہ عوام کا قصور ہے۔ آپ جب وزیر اعظم ہائوس کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں تو یہ رواں صورت حال بھی آپ کے سامنے ہونی چاہئے اور اس کا علاج بھی۔ماضی میں بھی حکومتوں کے یہ بیانات اور سابقہ حکومت پر الزامات عوام دیکھتے آئے ہیں لیکن وہ حکومتیں ساتھ ساتھ کچھ ایسے فیصلے کرتی تھیں ، ایسے منصوبے شروع کرتی تھیں کہ عوام کو فائدے ملنے لگتے تھے۔ اس لئے وہ ان بیانات کی بجائے ان منصوبوں پر نظر رکھتے تھے۔ چاہے وہ موٹر وے ہوں یا صحت کارڈ ۔ اب اپریل 2022سے یہ جو 13جماعتی حکومت آئی ہے وزیر اعظم سمیت ہروفاقی وزیر۔ وزیراعلیٰ سندھ ۔ ہر صوبائی وزیر کا ایک ہی Portfolio۔ قلمدان یعنی عمران خان لگتا ہے۔ وہی بیانات کا مرکزی موضوع ہے۔ وہی پریس کانفرنسوں کا ۔ تحریک انصاف والے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ حکمران عمران خان سے اس کی مقبولیت سے خائف ہیں۔ عوام بھی اسی سوچ کے قائل ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں یہ مخلوط حکومت ان کے محلے میں یا شہر میںیا صوبے میں ان کی پریشانی دور کرنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھاتی نظر نہیں آتی۔

وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت۔ سینکڑوں محکمے ہیں۔ اربوں روپے کے بجٹ ہیں۔ لاکھوں سرکاری ملازمین ہیںاور بے حساب مسائل ہیں۔ کرنے کے اتنے کام ہیں کہ کسی وزیر اعظم کو۔ وفاقی وزیر کو۔ صوبائی وزیر کو ایک لمحے کی فرصت بھی نہ ملے۔ اگر وہ واقعی اپنی ذمہ داری پر توجہ دے رہے ہوں تو انہیں عمران خان کے جلسے جلوس، بیانات دیکھنے سننے کا وقت ہی نہ ملے۔

خبر نہیں کہ آج کے حکمرانوں کو یہ احساس ہے کہ نہیں، کہ عام پاکستانی اس حکومت کو بے بس بھی سمجھ رہا ہے اور بے حس بھی۔ عام تصور یہی ہے یا تحریک انصاف نے بار بار کہہ کر یہ راسخ کردیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس حکومت کو لے کر آئی ہے اور وہ اب بھی اس کی طاقت ہے۔ اس کے بعد منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت جو چاہے وہ کرسکتی ہے۔

سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس اقتصادی بحران میں حکومت وقت کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ کیا وہ ترجیحات اختیار کی جارہی ہیں؟ 1۔ کیا عوام کی بنیادی ضرورت کی اشیا ان کی قوت خرید کے مطابق دستیاب ہیں؟2۔ کیا آٹا۔ چاول۔ چینی۔ سبزیاں۔ طلب اور رسد کے مطابق ہیں؟3۔ کیا عام لوگوں کو ٹرانسپورٹ سستی اور آرام دہ دستیاب ہے؟4۔ کیا لوگوں کو صحت۔ علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہیں؟ 5۔کیا عام پاکستانی کی جان مال محفوظ ہے؟ مہنگائی کم کیوں نہیں ہورہی۔ روپے میں طاقت کیوں نہیں آرہی۔ دہشت گردی کیوں بڑھ رہی ہے؟

یہ دور انتہائی متحرک اور فعال میڈیا کا ہے۔ ٹی وی چینل ۔ سوشل میڈیا۔ موجودہ حکومت کویہ بھی غورکرنا چاہئے کہ ان ذرائع ابلاغ پر اس حکومت کا تاثر اور تصور’’کچھ نہ کرسکنے کا‘‘ کیوں بن رہا ہے۔ یہی سوال ہمارا عمران خان سے بھی ہے کہ ان کے پاس سب سے بڑے صوبے پنجاب۔ کے پی ۔ آزاد جموں و کشمیر۔ گلگت بلتستان کی حکومتیں ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں صوبائی حکومتوں کے اختیار میں ہیں۔ ان حکومتوں میں کیا اسلام آباد۔ سندھ۔ بلوچستان کے مقابلے میں آٹا۔ چینی۔ چاول۔ سبزیاں گوشت کم قیمت پر دستیاب ہیں ؟ کیا یہ حکومتیں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں؟ 13جماعتی حکومت کا ہدف عمران خان کی نا اہلی ہے۔ اقتصادی خوشحالی نہیں۔ عمران خان کا ہدف 13جماعتی حکومت کا انہدام ہے۔ اپنے زیرنگیں 16 کروڑ کی زندگی آسان بنانا نہیں ہے۔

آنے والا مورخ یقیناً لکھے گا کہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں 22کروڑ کی زندگیاں بغض عمران اور حبّ عمران کی یرغمال بن گئی تھیں۔ ملک کو بحران سے نکالنے کی مطلوبہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ الیکشن تو کبھی نہ کبھی ہوگا اور اس میں تحریک انصاف کی جیت کے امکانات ہی ہیں لیکن اس وقت تک پاکستان کتنا کمزور ہوچکا ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین