• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو نیا سال 2023مبارک ہو۔ مگر بہت ہمت کرنا ہوگی۔

اتوار سے شروع ہونے والے سال عام طور پر کچھ مشکل ہوتے ہیں۔ اچھا سال وہ سمجھا جاتا ہے جس کا آغاز کام کے دن سے ہو ۔ لیکن ایسے خوش فہم اور امید پرست بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ چھٹی سے شروع ہونے والے سال سے یہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ آپ سال کے پہلے دن آئندہ 364 دنوں کے لئے خوب جی بھر کے سوچیں۔ لائحہ عمل بنائیں۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتے پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں ۔ بہوئوں۔ دامادوں سے ملنے کا دن۔ ان سے ڈھیر ساری باتیں کرنے کا وقت۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دینے کی گھڑیاں۔ اور یہ تو نئے سال کا پہلا اتوار ہے۔ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ ایک ابتلائوں۔ بحرانوں۔ مشکلات۔ بے یقینیوں۔ روپے کی مسلسل گراوٹ۔ زر مبادلہ کے کم ہونے ۔ایک دوسرے پر الزامات۔ قاتلانہ حملوں ۔ بے وفائیوں۔ تڑک کرکے ٹوٹنے والی یاریوں کا سال گزر گیا۔ اس سال میں اقدار کی شکست و ریخت اور زیادہ تیزی سے ہوئی۔ تہذیب تار تار ہوئی۔ تمدن کے بخیے ادھیڑے گئے۔ سازشیں اپنے عروج پر رہیں۔ آزادیاں غلامیوں میں تبدیل ہوتی رہیں۔ سب کو ہی یہ سال بہت زخم دے گیا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتیں بڑھنے لگی ہیں۔ حکمراں زیادہ بے بس اور بے حس نظر آئے۔

نئے سال سے بہت سی امیدیں باندھی جاتی ہیں۔ بے کراں امکانات سوچے جاتے ہیں۔ لیکن تجزیے اور سروے کرنے والی اقتصادی ایجنسیاں۔ وقت کی رفتار پر تحقیق اور تخلیق کرنے والی کمپنیاں 2023 کے بارے میں بہت خبردار کررہی ہیں۔ اس کو سخت چیلنجوں والا سال کہہ رہی ہیں۔ صرف پاکستان کے لئے ہی نہیں دنیا بھر کے لئے ایک مشکل سال ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک کیلئے تو خطرات اور زیادہ ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں وقت کی للکار کا مقابلہ کرنے والے کم ہوتے ہیں۔ واویلا کرنے والے زیادہ۔ میڈیا پر شور زیادہ مچایا جاتا ہے۔ حالات سے پنجہ آزما ہونے کے لئے لائحہ عمل بہت کم تشکیل دیے جاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی تو برسوں پہلے کہہ گئے تھے۔

حالات سے پنجہ آزما ہو

حالات کو سازگار کرلے

ملکوں کی اقتصادی حالت کی درجہ بندی کرنے والے ادارے پاکستان کے لئے اچھے امکانات نہیں بتارہے ۔ جب اچھے خاصے ترقی کرتے ممالک کیلئے بھی 2023 میں بہت سی مشکلات ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں بحرانوں سے نمٹنے کیلئے روز مرہ گزارنے کیلئے باقاعدہ سسٹم بن چکے ہیں۔جہاں قانون کا نفاذ یکساں ہے۔ جہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ وہاں بھی معیشت کی راہ میں بہت سے کوہ گراں بتائے جارہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عالمگیر وبا کورونا کے اثرات اب تک باقی ہیں۔ چین جہاں سے کورونا کا آغاز ہوا تھا۔ وہاں کورونا نے یلغار کر رکھی ہے۔ چین کی معیشت بھی اتار چڑھائو کی زد میں ہے۔ مگر وہاں ایک سخت نظام ہے۔ انتخابیوں اور جمہوریوں کی ناز برداری نہیں ہے۔ کرپشن کی سخت سزائیں ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی چین کی اپنی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم نافذ کرتی ہے۔ وہاں یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ سال کے نصف تک حالات سدھر جائیں گے۔امریکہ میں 2022گ زرنے پر اکثریت خوش ہے۔ لیکن افراط زر۔ بے روزگاری۔ قدرتی آفات کے حوالے سے بہت خدشات ہیں۔ امریکہ میں بھی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے پرتشویش ہے۔ سود کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار رہیں گی۔

یورپ میں بھی 2023کے لئے مایوسی کی شرح زیادہ ہے۔ بہت سی کمپنیوں نے عوامی سروے کئے ہیں۔ یہ زیادہ تر مایوس کن ہیں۔ عام اخراجات بڑھنے کے اشاریے زیادہ ہیں۔عالمی سطح پر کشمیر سمیت تنازعات میں سے کسی کے بھی طے ہونے کی امیدنہیں کی جارہی ۔ علاقائی اختلافات میں اضافے کی باتیں ہی کی جارہی ہیں۔امریکہ ،یورپ میں بھی نامعلوم دنیائوں سے اجنبی مخلوق کی یلغار کے خدشات ہیں۔ لیکن ہمارے ہمسائے اور ازلی دشمن بھارت میں کسی خلائی مخلوق کے اترنے کے 43 فی صد لوگ منتظر ہیں۔

ایک طرف قدرتی آفات کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی غیر ملکی سفر محدود رہنے کا کہا جارہا ہے۔ لیکن 32 فی صد کو یہ امید ہے کہ ٹیکنالوجی میں انسان کوئی ایسی ایجادات اور دریافتیں کرلے گا جس سے موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کو روکا جاسکے گا۔

پاکستان کے لوگ جفاکش ہیں۔ ہر مصیبت کے مقابلے کیلئے تیار۔ ایک تجزیئے کے مطابق پاکستان کو2023 کے مالی سال میں 26ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا ہے۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی۔ سیلاب نے ہمیں 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ 2023 سب سے زیادہ معاشی عذاب لے کر آرہا ہے۔ حکمراں طبقے آپس میں لڑتے رہیں گے۔ اتفاق رائے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ان سنگین اقتصادی چیلنجوں کا مقابلہ بری طرح بٹی ہوئی قوم کرے گی۔ کوشش اب بھی یہی ہے کہ آئی ایم ایف دوست ممالک۔ چین۔ سعودی عرب۔ متحدہ عرب امارات سے کچھ مالی مدد مل سکے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں کسی بھی حکومت نے پاکستان کے انسانی وسائل کی بہبود پر توجہ نہیں دی۔ قدرتی وسائل کو بروئے کار نہیں لاپائی۔ بنیادی معاشی اصلاحات نہیں کی گئی ہیں۔ غیر ملکی تجزیہ کار۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد امید کررہے ہیں کہ حالات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ کم از کم ایک شعبے میں بے یقینی ختم ہورہی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک یہ ہے کہ سیاستدانوں میں مفاہمت کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بھی جارحانہ کارروائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ وفاق اور صوبوں کی کشمکش بڑھ رہی ہے۔ عمران خان جلد انتخابات کو بحران کا خاتمہ سمجھ رہے ہیں۔ الیکشن سے سیاسی طور پر بے یقینی ختم ہوسکتی ہے۔ اقتصادی طور پر چیلنج اپنی جگہ رہیں گے۔ نئی حکومت کے پاس بھی جادو کی کوئی ایسی چھڑی نہیں ہوگی۔

اس لئے میری تو ہرپاکستانی سے یہ گزارش ہے کہ آپ اپنی اپنی جگہ ۔ اپنے محلّے گلی میں آپس میں مفاہمت بڑھائیں ۔ زمینی طور پر گروپ بنائیں۔ سوشل میڈیا پر حلقے استوار کریں۔ اپنے مسائل کے حل کی تجاویز لے کر اپنے ارکان اسمبلی سے ملیں۔ ان پر مسلسل دبائو ڈالیں۔ ان کو متحرک کریں تب ہی 2023 کا مشکل ترین سال کچھ آسان ہوسکے گا۔

تازہ ترین