• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک امریکہ تعلقات میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران رونما ہونے والی کشیدگی پر بات چیت کے لئے صدر اوباما کی جانب سے بھیجے گئے جنرل نکولسن ، رچرڈ اولسن اور پیٹر لیوائے پر مشتمل وفد سے گزشتہ روز ہونے والی الگ الگ ملاقاتوںمیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے اپنے ملک کا موقف کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر دوٹوک الفاظ میں پیش کرکے بلاشبہ قومی خود مختاری پر مبنی باوقار طرز عمل کا خوش آئند مظاہرہ کیا ہے۔امریکی وفد میں افغانستان میں اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل، افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکی حکومت کے خصوصی نمائندے اور جنوبی ایشیائی امور کے ڈائرکٹر جیسے کلیدی عہدیداروں کی شمولیت سے اس بات چیت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عین اسی موقع پر صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوج کے کردار میں توسیع کی منظوری سے اس ملاقات کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔امریکی حکومت کے اس فیصلے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف امریکی جنگی طیارے استعمال کئے جاسکیں گے اور افغان فوج کی زیادہ فعال طور پر مدد کی جاسکے گی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ملاقات میں خطے کی سلامتی بالخصوص اکیس مئی کے امریکی ڈرون حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر روشنی ڈالی۔آرمی چیف نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے کو پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیااور اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ خطے میں پائیدار امن کے لئے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ فریق مشترکہ عزم و ذمہ داری اور باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ تمام فریقوں کو ایک مشکل سرحد، قبائلیوں کے باہمی روابط اور کئی دہائیوں سے تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجروں کی موجودگی کی صورت میںپاکستان کو درپیش چیلنجوں کا احساس ہونا چاہئے۔ آرمی چیف نے بجا طور پرمطالبہ کیا کہ امریکہ افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو ڈرون حملوں کا ہدف بنائے۔پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے ڈرون حملے کو پاکستان کی خودمختاری کے منافی قرار دینے کے علاوہ امریکی وفد پر واضح کیا کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی شمولیت سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔امریکی وفد کو گرفتار بھارتی ایجنٹ کل بھوشن یادیو کا اعترافی بیان اور بلوچستان، کراچی اور فاٹا میں بھارتی خفیہ ایجنسی کی کارروائیوں کے دیگر ثبوت بھی پیش کئے گئے۔مشیر خارجہ نے مزید کہا کہ جس طرح پاکستان طالبان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہا ہے اسی طرح افغانستان میں پاکستانی طالبان کی قیادت اور پناہ گاہوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہئے۔ بلاشبہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو بھی ڈرون حملوں کا ہدف بنایا جائے ۔یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ پاکستانی طالبان قیادت کی افغانستان میں برسوں سے موجودگی کے باوجود افغان حکومت پر انہیں محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کا الزام کیوں نہیں لگایا جاتا اور کابل حکومت سے ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے کھلے ثبوت سامنے آجانے کے بعد امریکہ سے پاکستان کی یہ توقع اور مطالبہ بھی بے جا نہیں کہ وہ بھارت کو اس طرزعمل سے باز رکھے تاکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حتمی کامیابی کی منزل تک جلد از جلد پہنچ سکے۔نیز بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنانے کی امریکی حمایت پر بھی پاکستان کا یہ موقف حقائق کے عین مطابق ہے کہ اس سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن خراب ہوگا اور عدم استحکام پیدا ہوگا لہٰذا امریکہ کی جانب سے پاکستان کو بھی اس گروپ کا رکن بنانے کی حمایت کی جانی چاہئے۔ امریکہ سے پاکستان کے تمام مطالبات اسی حوالے سے ہیں لہٰذا امریکی انتظامیہ کو پاکستان کے ان مطالبات کو تسلیم کرنے میںکسی تامل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔
تازہ ترین