• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فنانس منسٹر اسحاق ڈارکی ذمہ داریاں کسی طور بھی ’’قابل ِ رشک‘‘ نہیں۔موصوف کی صلاحیتوں، جن سے کسی کو انکار نہیں، پر بہت سے سیاسی، معاشی اور قومی سلامتی کے امور نے دیواریں کھڑی کی ہوئی ہیں ، چنانچہ وہ پائیدار اور طویل المدت شر ح ِ نمو کے لئے درکار معاشی اصلاحات نافذکرنے سے قاصر ہیں۔
ایک بنیادی مسئلہ جو سب امور کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ کسی بھی حکومت کی طرف سے دولت کمانے والے اور انتہائی مالدار پاکستانیوں پر براہ ِ راست ٹیکس لگانے میں ناکامی ہے ۔ یا تو حکومت یہ جوکھم اٹھانے کے قابل ہی نہیں ہوتی ،یا ا س کی ایسا کرنے کی مرضی ہی نہیں ہوتی ۔ اس کے نتیجے میں ہماری جی ڈی پی کی مناسبت سے ٹیکس کی شرح صرف 13 فیصد ہے ، جوکہ انتہائی کم ہے ۔ عالمی سطح ُپر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لئے اس کا 20 فیصد سے زیادہ ہونا ضروری ہے تاکہ کم از کم ضروری اخراجات پورے کئے جاسکیں، معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے کر اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرکے غربت کو کم کیا جاسکے ۔ درحقیقت جب ایف بی آر اپنا محصولات جمع کرنے کا ہدف پورا کرلیتا ہے ، جیسا کہ اس سال کیا گیا، تو یہ اس کے لئے بالواسطہ ٹیکسز کا سہارا لیتا ہے (اس مرتبہ براہ ِراست وصول کئے گئے ٹیکسز ہدف سے 240 بلین روپے کم رہے )، چنانچہ ان کا بوجھ غیر مساوی طور پر غریب اورکم آمدنی والے افراد پر پڑتا ہے ۔ اس سے دولت کی عدم مساوات وجود میں آتی ہے ۔
بدقسمتی سے مسٹر ڈار کی معاشی تجاویز میں دولت مند پاکستانیوں ، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور جو کالا دھن سمیٹ رہے ہیں، کی آمدنی کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہر حکومت اس کے دعوے ضرور کرتی ہے لیکن طاقتور ٹیکس چوروں پر کریک ڈائون کرنے کی سیاسی قوت ِ ارادی نہیں رکھتی۔ اس کی بجائے موجودہ محب الوطن ٹیکس دہندگان پر دبائو ڈال کر ان کی جیب سے زیادہ سے زیادہ زر نکلوایا جارہا ہے ۔ اسی سے وابستہ ایک اور ایشو یہ کہ پاکستان کا کم وبیش ساٹھ فیصدجی ڈی پی سروسز ( جیسا کہ پروفیشنل اور تفریحی) سے حاصل ہوتا ہے ، لیکن اس پیشہ ور طبقے کا کل محصولات میں حصہ صرف تیس فیصد ہے ۔ اسی طرح زرعی شعبے کا حصہ بھی جی ڈی پی میں بیس فیصد تک ہے لیکن یہ شعبہ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ اس کی حالت کم پیداوار، کاشت کاری پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اور پیداوار کے سماجی اور معاشی تعلق کی وجہ سے مستقل طور پر ’’خستہ ‘‘ رہتی ہے ۔ لینڈ ریفارمز،بائیوٹیک ایپلی کیشن اور حقیقت پسندانہ معاون پالیسیوں کے بغیر اس شعبے سے وابستہ عام کاشت کار کی آمدنی بڑھانا ممکن نہیں۔ لہذا ان سے ٹیکس کی وصولی بھی ممکن نہیں۔ تاہم ان اصلاحات کے نفاذ کے راستے میں بہت سے طاقتور دھڑوں کے سیاسی اور معاشی مفادات آڑے آتے ہیں، چنانچہ وہ موجودہ صورت ِحال میں تبدیلی کے روادار نہیں۔
محصولات میں ہونے والی کمی کی وجہ سے اخراجات پر بریک لگانا پڑتی ہے ، اس سے پیداواری عمل بھی متاثر ہوتا ہے ۔ جب اس معاملے کے حقائق پر نظر کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جمع ہونے والے محصولات دو عوامل کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ایک دفاع اور دوسراقرض کی ادائیگی۔ اس کا مطلب ہے کہ ترقیاتی اسکیموں کے لئے یا تو مقامی طور پر دیگر ذرائع سے وسائل اکٹھے کئے جائیں گے یا غیر ملکی عطیہ یا قرض فراہم کرنے والی تنظیموں سے لئے جائیں گے ۔ جہاں تک غیر ملکی سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو یہ ذریعہ تو کم وبیش بانجھ ہوچکا ہے ۔ گزشتہ سال پاکستان میں بمشکل ایک بلین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی ۔ اس کی وجہ ہماری نیشنل سیکورٹی کی پالیسیاں ہیں جنھوں نے ہمیں کم و بیش عالمی تنہائی سے دوچار کردیا ہے ۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے ہم عالمی برادری سے کٹ کر رہے گئے ہیں اور داخلی طور پر عدم استحکام کا سامنا کررہے ہیں۔
ہر حکمران جماعت کی نااہلی، بدانتظامی اور بدعنوانی نے ان مسائل کو بڑھایا ہے ۔ چنانچہ ہر حکومت کو حاصل ہونے والے اصل محصولات اور مجوزہ اخراجات کے درمیان فرق کی وجہ سے خسارہ کا بجٹ بنا کر بنکوں سے قرض لینا پڑتا ہے ۔ چونکہ بنک نجی شعبے میں چلائے جارہے ہیں، اس لئے وہ بخوشی حکومت کو قرض دے دیتے ہیں۔ اس طرح دولت کا ارتکاز نجی شعبے کی طرف ہے ۔ یہ ہے کہ شیطانی چکر جس کی وجہ سے قومی قرضہ جی ڈی پی کا ساٹھ فیصد ہوچکا ہے ۔ ۔ گزشتہ کئی عشروںسے قرضے میں اضافے کا رجحان جار ی ہے ۔ تاہم اس طرح کی خسارے کی معیشت دوعوامل کی وجہ سے محدود ہوجاتی ہے ۔ مہنگائی کم رکھنے کی سیاسی ضرورت، اور قرض فراہم کرنے والوں ، جیسا کہ آئی ایم ایف ، کا دبائو کہ ہم اپنی کرنسی اور غیرملکی ادائیگیوں کی شرح کو مستحکم رکھیں۔
چنانچہ حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ کچھ ہیر پھیر سے معیشت کی صحت مندانہ تصویر دکھائے ، جو دراصل محض دکھاوا ہے ۔ بجٹ کی تقریر کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی اصلیت نمایاں ہونا شروع ہوجاتی ہے ، اور تمام سال ہم سپلیمنٹری بجٹ اور اخراجات کے لئے بھاری گرانٹس دیکھتے رہتے ہیں۔ دفاعی اخراجات اور سرکاری شعبے میں چلنے والی انٹر پرائز کا خسارہ پورا کرنے کے لئے ہر سال بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت جی ڈی پی کی شرح نمو کوبھی اپنی مرضی سے تبدیل کرکے دکھاتی ہے ۔ جب بھی حکومت کی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے تو آنے والی حکومت سابق حکومت کی معاشی غلط بیانی کا کچا چھٹا کھول کر رکھ دیتی ہے ۔ حقیقت بے نقاب ہونے سے آنے والی حکومت کی کارکردگی بہتر دکھائی دیتی ہے ۔ اسی دکھاوے کا نام معاشی جادوگری ہے ۔
آزاد تھنک ٹینک دعویٰ کرتے ہیں کہ 2015-16 میں جی ڈی پی کی نمو صرف 3.1 فیصد تھی ، جبکہ حکومت اسے 4.7 فیصد ظاہر کررہی تھی۔ زرعی شعبہ، جس کے کپاس اور چاول ہماری اہم برآمدات ہوتے تھے ، اس میں دوفیصد کی کمی واقع ہوچکی ہے ،لیکن حکومت سیاسی وجوہ کی بنیاد پر اس پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاکوئی اس بجٹ سے خوش بھی ہے ؟اہم برآمدکنندگان خوش ہیں کیونکہ ان کی برآمددرآمد پر کوئی نیا ٹیکس یا ڈیوٹی نہیں لگی۔ اسی طرح سرکاری ملازمین بھی خوش ہیں کیونکہ اُن کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ حسب ِمعمول مقتدر ادارےکو کیک کا بڑا حصہ مل گیا ہے، چنانچہ وہ بھی خوش ہے ۔افسرشاہی کی سہولتوں اور ثمرات کا نہ کوئی اندازہ ہے اور نہ ٹھکانہ، چنانچہ اُن کے عیش ہی عیش ہیں۔ خسارے میں جانے والی انٹر پرائزز کو سبسڈی مل گئی ہے، چنانچہ وہ بھی خوش۔ تاجر طبقہ ، جو زیادہ ترپی ایم ایل (ن) کے ووٹر ہیں، حسب ِمعمول ٹیکس کے دائرے سے باہر۔ ان کے ناراض ہونے کی تو کوئی وجہ ہی نہیں۔ ہاں ، پاکستان کے لاکھوں غریب افراد ناخوش ہیں جن کااس بجٹ سے نہ تو پہلے کوئی پرسان حال تھا اور نہ بعد میں۔
تازہ ترین