• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی طو ر پر ہمارے ابتر حالات سب کے سامنے ہیں اور سب کوانہیں درست کرنے کی فکربھی ہے کہ کہیں ہم دیوالیہ نہ ہو جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشی طور پر جو نقصان ہوتے ہمیں سامنے نظر آ رہے ہیں اُنہیں روکنے کےلئے ہم کچھ نہیں کر رہے۔ نہ سیاستدان ،نہ عوام۔

 سیاستدان اگر مل بیٹھ کر میثاق معیشت کے لئے تیار نہیں تو عوام بھی رات گئے تک شاپنگ کرتے اور بازاروں، مارکیٹوں میں گھومنے پھرنے کی عادت چھوڑنے پر تیار نہیں۔ یہی حال تاجر برادری کا ہے کہ جو مرضی ہو جائے صبح جلدی دکانیں نہیں کھولنیں اور شام سات بجے بازاروں کو بند نہیں کرنا۔ گویا بحیثیت قوم ملک کو معاشی طور پر ڈیفالٹ کی طرف دھکیل رہے ہیں اور اس میں ہم سب کاحصہ شامل ہے۔

 ہمارا یہ رویہ دراصل اُس معاشرتی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ایک رخ ہے جس کا بحیثیت قوم ہم ایک عرصہ سے شکار ہو چکے لیکن ہمیں احساس نہیں۔ معاشی طور پر دیوالیہ ہونے پر ملک اور قوم کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن یقین جانیے جس اخلاقی دیوالیہ پن کا ہم شکار ہو چکے اور جس کا نہ ہمیں احساس و ادراک ہے اور نہ ہی اُس کی درستی کی فکر ، اُس کا نقصان بہت زیادہ ہےجو ہماری نسلوں تک کو متاثر کریں گے۔ ہماری اخلاقیات تباہ ہو چکی۔

 فراڈ، جھوٹ، مفاد پرستی، رشوت سفارش، دھوکہ دہی، کام چوری کسی خرابی کا نام لےلیں وہ ہم میں موجود دکھائی دیتی ہے۔ ہم نام کے مسلمان ضرور ہیں لیکن ہمارے عمل دیکھیں تو شرم آتی ہے۔چونکہ معاشرےکی کردار سازی کوتو ہم کب کا بھلا چکے اور ماضی کے برعکس اب اسکولوں کالجوں میں بھی تربیت کا کوئی انتظام نہیں چنانچہ اس کے نتیجے میں ہم میں اچھائی بُرائی کی تمیز بھی نہیں رہی۔ جھوٹ ،بے ایمانی وغیرہ کو ہم بُرا سمجھتے ہی نہیںبلکہ اپنے دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے ان قباحتوں کا سہارا لینے کو اسمارٹنس کا نام دیتے ہیں۔

 پیسہ کمانا ہمارا مقصد ہے اور اس کے لئے حلال ،حرام کی بھی ہمیں کوئی تمیز نہیں۔ معاشرےمیں بڑھتے جرائم اور ان کی اقسام کا جائزہ لیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارے معاشرےمیں ایسے ایسے جرائم ہو رہے ہیں کہ درندگی اور حیوانیت بھی شرما جائے۔ مغربی دنیا کا نظام حکومت، گورننس اور عوام کو دی جانے والی سہولتوں کے لئےبنائے گئے نظام اور اصولوں کو تو ہم گھاس نہیں ڈالتے لیکن فحاشی و عریانیت جیسی خرافات کی ہم خوب نقالی کرتے ہیں اور اسے ترقی خیال کرتےہیں۔

ہماری گراوٹ کا حال دیکھیں کہ اب تو ہمارے معاشرے میں مغرب کی نقالی میں ہم جنس پرستی جیسی لعنت کو عام کرنے کے لئے بھی مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔اسکولوں کالجوں کا ماحول بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔ یعنی جن تعلیمی اداروں میں ہماری نئی نسل کی تربیت اور کردار سازی کا انتظام ہونا چاہئے و ہی ہمارے بچوں کے بگاڑ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔

 یہاں تو اب کچھ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسے نام نہاد اساتذہ بھی موجود ہیں جو تربیت اور تعلیم کیا طالب علموں کو اسلام سے ہی دور کرنے کے در پے ہیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہےکہ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی معاشرےکے بگاڑ اور اخلاقیات کی تباہی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ معاشرہ کے اس دیوالیہ پن پر ریاست بھی خاموش ہے اور سیاست بھی۔اخلاقیات کی بربادی کا مطلب ہے کہ بحیثیت قوم ہم تباہی کا شکار ہیں۔

کوئی کتنا بھی پڑھ لکھ لے، اگر بے ایمانی، جھوٹ، فراڈ کو بُرا نہیں سمجھا جاتا تو پھر بہتری کی توقع کی بجائے بدتری میں ہی اضافہ ہو گا اور یہی ہمارے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی طور پر ہم دیوالیہ ہو چکے اور یہ ہمارا سب سے بڑا نقصان ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں اس دیوالیہ پن کو ریورس کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ معاشرتی اور اخلاقی طور پر تباہ معاشرے قائم نہیں رہ سکتے۔ ریاست، حکومت، عدلیہ، میڈیا اس طرف توجہ دے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین