• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پاکستان قائداعظم نے جانے کس پیرائے اور تناظر میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کی بات کی تھی مگر ہم نے اسے ایک ایسی لیبارٹری میں تبدیل کردیا ہے جہاں اسلام ہی نہیں معیشت ،معاشرت ،سیاست ،انداز جہاں بانی یعنی طرز حکومت سمیت ہر طرح کے تجربات کئےجا سکتے ہیں۔ آج کل اس تجربہ گاہ میں ایک بار پھر نئے اور پرانے اجزائے ترکیبی کی آمیزش سے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کا محلول تیار کرنے پر غور کیا جارہا ہےحالانکہ اس سے پہلے بھی کئی بار یہ تجربہ ناکام ہوچکا ہے۔پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دور میں اس حوالے سے پہلا تجربہ کیا گیا۔ ایوب خان نے اپنی پہلی کابینہ تشکیل دی تو وزارتِ خزانہ کے قلمدان کیلئےورلڈ بینک میں پاکستانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب ایم شعیب کا انتخاب کیا حالانکہ ایم شعیب کا امریکی سی آئی اے سے تعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ پاکستان کا وزیرِ خزانہ بن کر بھی ایم شعیب نہ صرف عالمی بینک میں بطور ڈائریکٹرخدمات سرانجام دیتے رہے بلکہ اپنی تنخواہ بھی ورلڈ بینک سے وصول کرتے رہے۔ دونوں طرف سے بیک وقت دو تنخواہیں وصول کرنا ملکی مفاد اور اخلاقی اصولوں کیخلاف تھا مگروزیر خزانہ شعیب نے اس کھلی بے قاعدگی کی جنرل ایوب خان سے تحریری اجازت لے رکھی تھی۔ ورلڈ بینک کی تنخواہ کے مقابلے میں پاکستانی وزیر کی تنخواہ اتنی قلیل تھی کہ شعیب ایثار سے کام لے کر اسے چھوڑ بھی سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف مارشل لا آرڈر کے تحت لوگ باہر کے بینکوں میں اپنی جمع شدہ رقم پاکستان منتقل کرنے پر مجبور تھے اور دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خزانہ غیر ملکی بینک میں ہر مہینے ڈالر جمع کروا رہے تھے۔

قدرت اللہ شہاب جنہیں ’’گھر کا بھیدی ‘‘قرار دیا جا سکتا ہے،وہ ایوب خان کے ’’سنہرے دور‘‘ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے’’شہاب نامہ‘‘ کے صفحہ نمبر582پر لکھتے ہیں کہ ’’بین الاقوامی سطح پر پاکستانی روپے کی قیمت گر کر نصف کے قریب رہ گئی تھی لیکن اندرونِ ملک ہمارے اقتصادی ماہر صدر ایوب کی مونچھ کو تائو دیکر ان کے منہ سے یہی اعلان کرواتے رہے کہ ہم کسی دبائو کے تحت اپنے روپے کی قیمت ہرگز نہیں گھٹائیں گے۔ سرکاری شرح سے تو ایک پونڈ کی قیمت گیارہ، بارہ روپے بنتی تھی لیکن کھلی منڈی میں اسکا بھائو 18سے 24روپے تک اٹھتا تھا۔ پاکستانی کرنسی کی اصلی اور نقلی قیمت کا اتنا بڑا فرق اس کی ساکھ کیلئے انتہائی مضر تھا۔‘‘ایوب دور میںغیر ملکی زرمبادلہ پاکستان واپس لانے کے لئے مارشل لا کا ایک ضابطہ نافذ ہوا جس کے تحت ہر پاکستانی بغیر کوئی ٹیکس ادا کئے بیرون ملک سے اپنی رقوم واپس لا سکتا تھا۔ایک طرف لوگوں کو ترغیب دی جا رہی تھی کہ پاکستانی معیشت مستحکم ہے ،آپ اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوئے بغیر اپنا پیسہ واپس لائیں دوسری طرف ملک کے وزیرخزانہ ایم شعیب جن کی ورلڈ بینک میں نوکری کے باعث امریکہ میں لاکھوں ڈالر موجود تھے ،انہیں یہ رقم امریکہ کے ہی کسی بینک میں رکھنے کی اجازت دیدی گئی اور یہ حکم نامہ خود ایوب خان نے جاری کیا ۔1965ء میں بطور وزیر خزانہ سبکدوش ہونے کے بعد محمد شعیب ایک بار پھر آئی ایم ایف کو پیارے ہوگئے ۔ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین اپنی کتاب ’’Pakistan The Economy of an elitist State‘‘میں ایوب دور سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ’’ 1958ء سے1969ء تک کا دور جس میں فوجی حکمران چھائے رہے، تضادات کا مجموعہ رہا۔ایک طرف اقتصادی ترقی کے اعتبار سے ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح دیکھنے کو ملی تو دوسری طرف آمدنی میں عدم مساوات ،علاقائی اختلافات اورمعاشی طاقت کے ارتکاز میں بے پناہ اضافہ ہوا۔اگرچہ تگڑی مائیکرواکانومک مینجمنٹ دیکھنے کو ملی مگر اس دور میں بعض ایسے سلسلہ وارمسائل کی راہ ہموار کی گئی، جو آنے والے حکومتوں کے دوران بڑھتے چلے گئے۔ ‘‘ شاہد جاوید برکی اپنی تصنیف ’’pakistan: moving the economy forward‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو مسلسل گھٹتی گئی اور پہلے والی پوزیشن پر نہ جا سکی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایوب دور میں معاشی ترقی کی بنیاد غیر ملکی امداد کے ناقابل یقین سہارے پر رکھی گئی تھی ،یہ خوشحالی اس قدر مصنوعی تھی کہ چند روزہ جنگ نے اس کے چہرے سے نقاب اتار پھینکا ۔‘‘ ایوب خان کی ان پالیسیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ پلاننگ کمیشن کے چیف اکانومسٹ محبوب الحق کو بذات خود یہ کہنا پڑا کہ ملک کی صنعتوں سے متعلق 66فیصد دولت جبکہ بینکنگ اور انشورنس کے شعبہ میں 87فیصد دولت پر 22خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔جب ایوب خان کی رُخصتی سے چند ماہ قبل سرکاری سطح پر ’’عشرہ ترقی ‘‘یعنی Decade of Developmentمنایا جا رہا تھا تو حبیب جالب نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی۔

بیس گھرانے ہیں آباد، اور کروڑوں ہیں ناشاد

ہم پر اب تک جاری ہے،کالی صدیوں کی بے داد

صدر ایوب زندہ باد

بیس روپئے من آٹا،اس پر بھی ہے سناٹا

گوہر، سہگل آدم جی،بنے ہیں برلا اور ٹاٹا

ملک کے دشمن کہلاتے ہیں، جب ہم کرتے ہیں فریاد

صدر ایوب زندہ باد

لیکن سائنسدان باز نہیں آئے۔1993ء میں معین قریشی کو وزیراعظم بنا کر ایک اور ناکام تجربہ کیا گیا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز کی

بطور وزیر خزانہ اور پھر وزیراعظم کے طور پر تعیناتی کو ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔اس لیبارٹری میں کئے گئے سب سے بڑے تجربے یعنی ’’پروجیکٹ عمران‘‘کے دوران بھی تومعیشت کی زمام کار عبدالحفیظ شیخ اورشوکت ترین جیسے ٹیکنوکریٹس کے ہاتھوں میں رہی ۔سرتسلیم خم کہ ملک انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے مگر ماضی کے تجربات سے سبق سیکھئے،اس ملک کے عوام جنہیں گنی پگ سمجھ کر نت نئے تجربات کیلئے مشق ستم بنایا گیا انکی حالت زار پر رحم کیجئے۔

تازہ ترین