• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ڈی ایم کی حکومت نے جب سے اسلام آباد کا اقتدار سنبھالا ہے تب سے پاکستان کے سیاسی افق پر بے یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ معیشت افواہوں کی زد میں ہے۔سیاسی عدم استحکام نے عام آدمی کی بے چینی کو بڑھا دیا ہے۔حکمراں اتحاد کے اندازِ حکومت نے ملکی معیشت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ایک نحیف و نزار اور دست نگر معیشت کی پشت پر اتنا بھاری بھر کم ریاستی ڈھانچہ لاد دیا گیا ہے کہ بظاہر رستگاری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔حکومتی کارپوریشنز جونک کی مانند ریاستی خزانے کا خون چوس رہی ہیں۔کوئی ایسا ادارہ نہیں جو حکومت کیلئے نفع بخش ہو بلکہ تمام ادارے حکومت اور عوام کیلئے ایک بوجھ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔اندرونی اور بیرونی خسارے نے تمام ماہرین معاشیات کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ عارضی طور پر ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پروگرام میں پناہ لینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جسکے نتیجے میں مہنگائی کی نئی لہر آنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے لیکن حکومت کے کار پردازان اپنی عیش و عشرت پر کسی قسم کا’’کٹ‘‘ لگانے کیلئے تیار نہیں۔عام پاکستانی غربت کے سمندر میں غرق ہوتا جا رہا ہے اور اسی غریب اور پسماندہ ملک کی اشرافیہ دن بدن اپنا طرز زندگی مزید شاہانہ کئے جارہی ہے۔بیرونی ممالک سے تجارتی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں اور ایک زرعی ملک آٹے کے بحران کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔پاکستان کی 45 فیصد سے زائد آبادی زراعت سے منسلک ہے، یہاں سب سے بڑا نہری نظام ہے لیکن اسکے باوجود قحط کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ گندم کی پیداوار میں کمی کے پیش نظر حکومت نے 30 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔گندم کا ریٹ جو کچھ دن پہلے 3300 روپے فی من تھا، اب 4300روپے فی من تک پہنچ چکا ہے۔عام آدمی کی آٹے تک عدم رسائی کی وجہ سے غربت کا شکار پاکستان کا ایک بڑا طبقہ شدید بے چینی اور تکلیف میں مبتلا ہے۔شاید آج جیسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے جناب حبیب جالب نے کہا تھا؎

جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے

جس دیس میں بجلی پانی کا فقدان حلق تک جا پہنچے

اس دیس کے ہر اک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے

ان ناگفتہ بہ حالات کے دوران گزشتہ دنوں اقتدار کے ایوانوں سے معاشی ایمرجنسی کی سرگوشیاں سننے کو ملیں اور معاشی ایمرجنسی کی آڑ میں ٹیکنوکریٹ حکومت کا غیر آئینی شوشہ بھی چھوڑا گیا۔اگرچہ حکمراں اتحاد کے وزیرداخلہ جناب رانا ثناء اللہ اور تحریک انصاف کے ترجمان جناب فواد چوہدری دونوں نے ٹیکنوکریٹ حکومت کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے خارج از امکان قرار دیا لیکن اس کے باوجود باخبر حلقوں نے اس کے امکانات پر بحث جاری رکھی ہوئی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ موجودہ بحران ایک دن میں پیدا نہیں ہوا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکمراں اتحاد نے اس صورت حال کو سنبھالنے کی سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کیں۔میاں شہباز شریف نے اپنی سیاسی مجبوریوں کو ملکی معیشت پر فوقیت دیتے ہوئے ایسے تلخ فیصلے کئے کہ جن کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔شہباز حکومت کے آنے کے بعد ایک بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا کہ جس سے عوام کو ریلیف مل سکے۔ڈالر کی اڑان قابو میں نہ آئی،بجلی اور گیس کے ہوشربا بلوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ ایک طرف سیلاب نے ملکی آبادی کے بہت بڑے حصے کو بے گھر کر دیا، زرعی زمینوں پر غریب عوام فصل کاشت نہ کر سکےتو دوسری طرف حکمرانوں نے بھی ان کو بے آسرا، کھلے آسمان تلے چھوڑ دیا ،سخت سردی میں وہ کن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں حکومت کو اس سے کوئی غرض نہیں۔حکومت کی واحد توجہ عمران خان کی آواز دبانے پر ہے جس میں وہ بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے۔کردار کشی کی تمام تر کوششوں کے باوجود کرپشن کے خلاف عمران خان کا بیانیہ دن بدن زور پکڑ رہا ہے۔ حکومت کے اعصاب پر شکست کا خوف کچھ اس طرح سوار ہے کہ اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن تک ملتوی کروا دیے گئے۔کراچی کے انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے حکومت کی مدت بڑھا کر اس عرصہ کو طویل تر کرنے کی غیر دستوری کوشش کی جا رہی ہےلیکن حکومت کی جانب سے کئے گئے ان بچگانہ اقدام کی وجہ سے ملکی خزانہ خطرے کی آخری حد تک گر چکا ہے۔پاکستان کی موجودہ معاشی سنگینی کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔سیاسی عدم استحکام اور معاشی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ملک میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں پھر شروع کر دی ہیں۔کوہلو کے علاقے کاہان میں کلیئرنس آپریشن کے دوران بارودی سرنگ میں دھماکے کے نتیجے میں کیپٹن فہد،لانس نائیک امتیاز،سپاہی اصغر،سپاہی مہران اور سپاہی شمعون شہید ہوگئے، اس سے قبل بلوچستان کے علاقے ژوب میں ایک آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گردمارا گیاجبکہ دہشت گردوں سے مقابلے میں سپاہی حق نواز اور دو جوان شہید و زخمی ہوئے۔پاک فوج کے افسر اور جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر دھرتی ماں کی حفاظت کیلئے دن رات مصروف عمل ہیں۔اس سارے معاملے سے اگر کوئی طبقہ بے فکر ہے تو وہ حکمراں اتحاد ہے۔نہ معیشت پر توجہ ہے نہ قومی سلامتی کے معاملات پر۔ بے نتیجہ طویل اجلاس،لمبی چوڑی بریفنگز،بے مغز پریس کانفرنسز،بے مقصد غیر ملکی دورے اور اخلاقیات سے عاری سیاسی بیانات۔ وقت آگیا ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کیلئے حکومت خود اپنے اخراجات کی قربانی دےکیونکہ عوام میں تو مزید قربان ہونے کی سکت نہیں۔

تازہ ترین