• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملازمتیں لامحالہ عہدوں کے حوالے سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔ ہم فقیروں کا واسطہ چونکہ سرکار وقت سے پڑتا رہتا ہے، اسلئے ہم بلاواسطہ اور بالواسطہ خود کو سرکاری عہدوں تک محدود رکھیں گے۔ جتنی چادر ہمیں میسر ہے، اتنے پیر پھیلائیں گے۔ بھولے سے بھی چادر سے پائوں باہر نکالنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ ہمارے ہاں چادر سے پائوں باہر نکالنے والوں کے پائوں کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ ہم شروع کررہے ہیں سرکاری عہدے داروں کی خود نوشت، آپ بیتی، آتم کتھا، یعنی آٹوبائیو گرافی کا سلسلہ۔ اس سلسلے میں آپ سنیں گے سیکرٹری سے لے کر نائب قاصد تک کی آتم کتھا یعنی آپ بیتی، یعنی آٹو بائیو گرافی۔ ہم آتم کتھائوں کے سلسلے کی ابتدا کرتے ہیں، ایک ڈرائیور کی آپ بیتی سے۔ سب ڈرائیور کام تو ایک جیسے کرتے ہیں مگر ان کے کام کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ہوائی جہاز چلانے والے کو آپ ڈرائیور نہیں کہہ سکتے۔ حالانکہ وہ کام ڈرائیوروں والا کرتا ہے یعنی ہوائی جہاز چلاتا ہے۔ ہوائی جہاز چلانے والے کو ہم پائلٹ کہتے ہیں۔ پانی کا جہاز چلانے والے کو آپ ڈرائیور نہیں کہہ سکتے۔ پانی کا جہاز چلانے والے کو کیپٹن کہتے ہیں۔ ہوائی جہاز چلانے والوں کو ڈرائیور کیوں نہیں کہتے؟ یہ میں نہیں جانتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ہوائی جہاز چلانے والے کو پائلٹ کہتے ہیں۔ پانی کا جہاز چلانے والے کو پانی کے جہاز کا ڈرائیور نہیں کہتے۔ پانی کا جہاز چلانے والے کو کیپٹن کہتے ہیں۔ ہوائی جہاز چلانے والے ڈرائیور یعنی پائلٹ اور پانی کا جہاز چلانے والے ڈرائیور یعنی کیپٹن کی تنخواہ بس ڈرائیور اور ٹرک ڈرائیور سے لاکھوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ معاشرے میں پائلٹ اور کیپٹن کی عزت ہوتی ہے، اہمیت ہوتی ہے۔ اپنا کام پورا کرنے کے بعد وہ جب گھر جا رہے ہوتے ہیں، تب انکی گاڑی ڈرائیور چلا رہا ہوتا ہے۔آپ بیتیوں کا سلسلہ ہم شروع کر رہے ہیں ایک ایسے ڈرائیور کی آٹو بائیوگرافی سے جس کو آپ پائلٹ یا کیپٹن کہہ کر مخاطب نہیں ہوتے۔ اسکو آپ ڈرائیور کہہ کر بلاتے ہیں۔ اسکے نام کا کریا کرم کرنے کے بعد آپ اس کو کبھی شیدا، کبھی کھدو، کبھی شیدی، کبھی فیکا کہہ کر بلاتے ہیں۔ سرکاری ڈرائیور سرکاری بسیں چلاتے ہیں۔ سرکاری ٹرک چلاتے ہیں۔ فائر بریگیڈ کی آگ بجھانے والی گاڑیاں چلاتے ہیں۔ بیل گاڑی اور گھوڑا گاڑی چلانے والوں کو آپ ڈرائیور نہیں کہتے۔ چار پہیوں والی گھوڑا گاڑی چلانے والے کو آپ کوچوان کہتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ بیل گاڑی چلانے والوں کو ہماری اپنی زبانوں Languages میں کیا کہتے ہیں۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ بیل گاڑی چلانے والے کو آپ کوچوان، ڈرائیور، پائلٹ اور کیپٹن نہیں کہہ سکتے۔ تمہید کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں اور ڈرائیور کی آتم کتھا، یعنی آپ بیتی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اب آپ سنیں گے ایک سرکاری ڈرائیور کی کہانی، اس کی اپنی زبانی۔

’’میرا نام اللہ رکھا ہے۔ میرے باپ کا نام رب راکھا تھا۔ تحصیل مرشد والی کے رہنے والے تھے۔ بیل گاڑی چلاتے تھے۔ ہم آٹھ بھائی اور سات بہنیں بہت چھوٹے تھے تب ہمارا والد یعنی باپ اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔ وہ اپنے بچوں یعنی ہم بچوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ تحصیل مرشد والی سے تحصیل پیراں والی کے درمیان بیل گاڑی چلاتا تھا۔ بیل گاڑی میں سامان ڈھونے کے علاوہ بابا دونوں تحصیلوں، مرشد والی اور پیراں والی کے درمیان لوگوں کو لے آتا تھا اور لے جاتا تھا۔ دونوں تحصیلوں کے علاوہ قرب و جوار کی تحصیلوں میں رہنے بسنے والے مرشد سائیوں اور پیر سائیوں کے معتقد ہوتے تھے۔ جب بھی اللہ سائیں سے دعا مانگتے تھے تب سیدھے یعنی ڈائریکٹ اللہ سائیں سے دعا نہیں مانگتے تھے۔ بابا پیر سائیوں اور مرشد سائیوں کی معرفت اور سفارش سے دعا مانگتے تھے۔ کہتے تھے، یاد رکھنا بیٹے، تم سیدھے اللہ سائیں سے کچھ مانگ نہیں سکتے۔ اللہ سائیں سے کچھ مانگنے کیلئے کسی تگڑے مرشد سائیں یا پیر سائیں کی سفارش لازمی ہوتی ہے۔ اسی طرح جیسے بادشاہ سلامت سے کچھ مانگنے کے لئے بڑےوزیر کی سفارش ضروری ہوتی ہے اور بڑے وزیر تک پہنچنے کیلئے کسی چھوٹے وزیر کی سفارش ضروری ہوتی ہے اور چھوٹے وزیر تک پہنچنے کیلئے کسی افسر سے دعا سلام لازمی ہوتی ہے۔ اسلئے بابا کبھی بھی براہ راست اللہ سائیں سے دعا نہیں مانگتے تھے۔ بابا پیر سائیوں اور مرشد سائیوں کے توسط سے یعنی Through Proper Channel اللہ سائیں سے کچھ مانگتے تھے۔ اللہ سائیں کو پیارا ہونے سے پہلے ایک روز بابا نے مجھے بلا کر کہا تھا:’’دیکھ اللہ رکھے، سب بھائی بہنوں میں تو سب سے بڑا ہے۔ میرے بعد تیرے کو یہ گھر سنبھالنا ہے۔ میں نے پیر سائیوں اور مرشد سائیوں کی معرفت اللہ سائیں سے دعائیں مانگی ہیں۔ تو میری طرح بیل گاڑی نہیں چلائے گا۔ دیکھنا، پیر سائیوں اور مرشد سائیوں کے طفیل تیرے لئے کچھ اچھا ہی ہوگا۔‘‘پیر سائیوں اور مرشد سائیوں کی دعائوں کے طفیل مجھے ڈرائیوری کرنے کی ملازمت مل گئی۔ میں نے ڈرائیوری سیکھی تھی ایک مسافر ویگن کے ڈرائیور سے۔ میرا نام تو اللہ رکھا تھا مگر ویگن والے مجھے چھوٹا کہہ کر بلاتے تھے، چھوٹے پیچ کس دے۔ چھوٹے ریڈیٔٹر میں پانی چیک کر۔ گاڑی کا آئل چیک کر۔ چھوٹے پانا دے۔ چھوٹے چائے لے آ۔ چھوٹے دو پلیٹ دال مکھن اور قندھاری نان لے آ۔ بچپن سے لڑکپن تک میں نے چھوٹا رہتے ہوئے استادوں سے گاڑیوں کے گر سیکھ لئے تھے۔ جوان ہوا تو میں کراچی اور حیدرآباد کے درمیان ویگن میں مسافر ڈھوتا تھا۔ اس کے بعد مجھے سرکاری نوکری کیسے ملی، یہ قصہ آپ کو آنے والی کتھا میں فقیر سنائے گا۔

تازہ ترین