• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں، بہوئوں، دامادوں سے ملنے، ان کے سوالات سننے، ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کا دن۔ بہت خوشی ہوتی ہے کہ آپ میں سے اکثر نے مجھ حقیر پُر تقصیر کی توجہ دلانے پر اپنے بزرگوں کی یہ روایت دہرانا شروع کردی ہےاور اس سے وٹامن بھی حاصل کررہے ہیں۔ یہ تو ہوگئی گھر داری۔ اس سے آگے بھی کبھی کبھی میری گزارش ہوتی ہے کہ اتوارکو نماز عصر کے بعد محلّے داری بھی ہونی چاہئے۔ حالات کے دبائو اور معاشی مجبوریوں نے ہمیں ایک دوسرے سے بہت دور کردیا ہے۔ پھر ہمارے جاگیردار قائدین، سرمایہ دار رہبروں اور ان کے سرپرست اداروں نے ہم میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کردی ہیں۔ کبھی ہمیں زبان کے حوالے سے بانٹا گیا، کبھی نسل کی بنیاد پر، ذات پات کی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں۔ صوبے بھی ہمیں تقسیم کرتے ہیں۔ پھر فرقوں کی حلقہ بندیاں کردی جاتی ہیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ہمیں الگ الگ کر رہی ہے۔ بے روزگاری کے ستم بھی ہم پر ٹوٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب اکیلے ہوگئے ہیں۔سارا دن ہم بے سہارا گھومتے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں کام ہو تو وہاں ہمیں اجنبی خیال کیا جاتا ہے۔ نائب قاصد سے لے کر چھوٹے بڑے افسروں کی جیبیں ہمارے ہاتھوں کی طرف لالچ بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔

یہ بے کسی بے بسی پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر سمیت سب جگہ ہی دیکھی جارہی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا نائب اشرف المخلوقات انسان تنہائی اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ان دنوں تو یہ بیگانگی شدت اختیار کر رہی ہے کیونکہ ہمارے حاکم چاہے وفاقی ہوں یا صوبائی۔ ضلعی حکومتیں تو ہیں ہی نہیں۔ ورنہ میئر ،ناظم، چیئرمین، کونسلر بھی یہی رویے اختیار کررہے ہوتے۔ بندہ پروری تو بندوں کے درمیان سے اٹھ ہی گئی ہے۔

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں

خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے

ہر چند کہ یہ عبوری حکومت نہیں ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں قائم ہوئی 13جماعتی اتحاد کی سرکار ہے لیکن یہ اپنے اندر حکمرانی،اپنے فیصلوں،اپنے بیانیوں سے ایک مستحکم انتظامیہ نہیںلگتی۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے عام انتخابات کے مسلسل مطالبوں نے بھی اسے ایک عارضی انتظام ہی محسوس کروایا ہے۔وفاق اور دو بڑے صوبوں نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ بہت سے ممالک میں رائج ہے۔ ان سے معاشرے کو فائدہ بھی ہو رہا ہے مگر ہمارے ہاں سیاسی محاذ آرائی نے سنجیدگی، متانت، حقیقت پسندی کو ناپسندیدہ بنادیا ہے۔

اس ساری صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ برآمدات بھی گھٹ رہی ہیں۔ ریاست کے پاس ڈالر ضرورت کے مطابق نہیں ہیں۔ اسلام آباد کی سرکار ہو یا لاہور کی، کراچی کی ہویا پشاور کی، کوئٹہ کی ہو یا گلگت، مظفر آباد کی۔ ان مشکل حالات میں کوئی بھی اپنے اخراجات کم نہیں کر رہی۔ بڑی بڑی کابینائیں ہیں۔ مشیر ہیں۔ معاونین خصوصی اور بہت سے غیر ضروری عہدے۔ کہیں کسی کفایت شعاری، خود کفالت، خود انحصاری کا چرچا بھی نہیں۔ حالات اور ابتر ہونے والے ہیں۔

یہ ایک طرح کی حالت جنگ ہے۔ اس افراتفری کا ایک مظہر تو گلی کوچوں میںہوتے جرائم ہیں۔ پورے ملک میں ہر روز وارداتیں ہورہی ہیں۔ بزرگ، جوان، مائیں، بہنیں لوٹی جارہی ہیں۔ مزاحمت پر بے دریغ گولی ماری جارہی ہے۔ ایسی اندھیر نگری چوپٹ راج میں حکمرانوں سے کوئی عرض گزارنا بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔ وہ اپنے آپ کو عقل کُل گردانتے ہیں۔ کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے ۔ درد جب حد سے گزرتا ہے تو وہ اپنی غیر ملکی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔ پہلے صرف سیاسی قائدین جاتے تھے۔ اب ہمارے غیر سیاسی قائدین بھی ریٹائرمنٹ کے بعد دوسرے ملکوں میں جاکر اپنی ملکی پنشن پر گزارہ کررہے ہیں۔

اس لیے اب وقت ہے کہ وہ کروڑوں لوگ جن میں کہیں باہر جانے کی مالی اہلیت نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ خیال ہم نفساں اب ناگزیر ہے۔ ہم پاکستانی اپنے گھروں، محلّوں۔ شہروں میں پھیلی دوریوں کو قربت میں بدلیں۔ ایسے تجربات اکثر ممالک میں ہوئے ہیں۔ سماجی شعور کے تقاضے پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی دارُ الحکومتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے ہم اپنے اپنے محلّے کی سطح پر اپنی مشکلات کا تعین کریں۔ اپنے مسائل کی شناخت کریں۔ آج کی اصطلاح میں ڈیٹا یکجا کریں۔ آس پاس بہت محترم اساتذہ بھی رہتے ہیں۔ پروفیسرز، ڈاکٹرز، حکماء، انجینئرز، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر نوجوان۔ اپنے اپنے ہُنر کے مطابق ملازمتیں کرتے ہم وطن۔ ہم سب کو حالات نے نفسا نفسی کی عادت ڈال دی ہے۔ ہمارے رئوسا، حکمران طبقے بھی چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے دوررہیں اور ان کے سیاسی تجربات کا ایندھن بنتے رہیں۔ ہم میں یہ احساس پیدا کردیا گیا ہے کہ ہم محض غلام ہیں۔ حکومت کی نوازش کے بغیر ایک قدم آگے نہیں جا سکتے۔ آپ اگر غور کریں تو آپ آگے خود بڑھ رہے ہیں۔ حکومت کے محکمے تو اس میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ آپ اگر اپنی اپنی بستی میں، اپنے محلّے، اپنے بلاک میں ایک دوسرے کو اجنبی بن کر دیکھنے کی بجائے دلوں میں اتریں۔ محلّے کی مسجد میں مل بیٹھیں۔ اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے، جیون میں عمدگی لانے کے لیے کمیونٹی کی بنیاد پر اپنے ہفتوں اور مہینوں کا لائحہ عمل بنائیں۔ یقین جانیں کہ آپ ان حکمرانوں سے وزیروں، مشیروں سے زیادہ ذہین ہیں۔ آپ کو اپنے مسائل کا ادراک بھی ہے اور ان کے حل کا علم بھی۔ محلّے کی ذہانتیں اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے آپس میں اشتراک کریں گی تو اس میں خلوص شامل ہوگا۔ آپ میں ان نام نہاد لیڈروں سے زیادہ اہلیت ہے۔ آپ ایک دوسرے کی طاقت بن سکتے ہیں۔ آپ اکٹھے ہوکر مہنگائی سے نمٹنے کے طریقے اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ دکاندار ہم میں سے ہیں۔ باہر سے نہیں آئے۔ پولیس والے بھی ہم میں سے ہی کسی کے رشتے دار ہیں۔ وہ بھی انہی محلّوں کا حصّہ ہیں۔ اپنے آپ کو بے بس بے کس نہ سمجھیں۔ قتیل شفائیؔ نے آپ کو جگانے کے لیے یاد دلایا تھا:

جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رُک جائے

قتیلؔ وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں

محلّے داری شروع تو کرکے دیکھیں۔ یہ استحصالی حکمران، مافیاز دم توڑ دیں گے۔ آپ ایک دوسرے کا ہاتھ تو تھامیں۔ پڑوسی کے در پر دستک تو دیں۔

تازہ ترین