• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’دا شاشنک ریڈیمپشن ‘‘امریکی ہدایت کار فرینک ڈارا بونٹ کی فلم ہے جو1994ء میں ریلیز ہوئی۔اگرچہ اب اس کا شماردنیا کی مقبول ترین فلموں میں ہوتا ہے لیکن جب یہ ریلیز ہوئی تو اسے فلاپ ترین فلم قرار دیا گیا تھا۔اس فلم کو بنانے کے لئے25ملین ڈالر خرچ ہوئے اور آغاز میں یہ فلم محض 16ملین ڈالر کما سکی۔اس فلم میں کئی خامیاں تلاش کی گئیں اور ناکامی کی متعدد وجوہات بیان کی گئیں مثال کے طور پر کہا گیا کہ اب لوگ جیل کی کہانیوں پر مبنی روایتی فلمیں پسند نہیں کرتے ،اس فلم کا تو نام ہی بہت کنفیوژ کردینے والا ہے ،کسی خاتون کو کاسٹ نہیں کیا گیالیکن کچھ عرصہ بعد جب ’’دا شاشنک ریڈیمپشن‘‘نے شائقین کی توجہ حاصل کی اور چلنا شروع ہوئی تو ایسی کھڑکی توڑ پرفارمنس دی کہ اب تک لوگ اس کے سحر میں مبتلا ہیں ۔ فلم کا مرکزی خیال اسٹیفن کنگ کے ناول سے مستعار لیاگیا ہے۔یہ دراصل دو قیدیوں کی کہانی ہے۔ایک بینکراینڈی ڈیو فرینس جس کاکرداراداکار ٹم رابنس کے حصے میں آیا ،اسے اپنی بیوی کو آشنا سمیت قتل کرنے کے الزام میں دھر لیا جاتا ہے۔وہ جرم قبول کرنے سے انکار کرتا ہے مگر اسے عمر قید کی سزا سنادی جاتی ہے اورریاست شاشنک کی جیل میں بھیج دیاجاتا ہے۔یہاں ایک اور قیدی جس کا نام ایلس ریڈنگ ہے اور اس کا کردار مورگن فری مین کو دیا گیا ،ا س سے اینڈی کی دوستی ہوجاتی ہے۔یہاں جیل میں بدمعاشوں کا ایک گینگ جو ’’سسٹرز‘‘کے نام سے مشہور ہے اس کا سرغنہ بوگز ڈائمنڈ اینڈ ی کو باربار جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے ۔ایک روز جیلر ناروا ٹیکس سے متعلق بات کرتا ہے تو اینڈی اپنے تجربے کے پیش نظر مالیاتی معاملات میں اس کی مدد کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔کام چل نکلتا ہے تو اینڈی کی مشکلات کم ہوجاتی ہیں ،بدمعاشوں سے جان چھوٹ جاتی ہے اور اسے جیل میں لائبریرین کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے سب سے پرانے قیدی Brooks Hatlenکے ساتھ بطور معاون منتقل کردیا جاتا ہےمگر کچھ عرصہ بعد پھر مشکل وقت شروع ہوجاتا ہے اور اسے قید تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔جیلر قیدیوں کے ساتھ نارو اسلوک کرتا ہے،قیدی مزدوری کرکے جو چیزیں بناتے ہیں اس سے مال بناتا ہے،رشوت لیتا ہے اور منی لانڈرنگ کرتا ہے۔اس دوران ایک اور قیدی ٹومی ولیمز آتا ہے اور اس کی بھی ان دونوں یعنی اینڈی ڈیو فرینس اور ایلس ریڈنگ سے دوستی ہوجاتی ہے۔کچھ عرصہ بعد ٹومی بتاتا ہے کہ جس جرم میں اینڈی یہاں قید ہے ،اس کا اعتراف تو کسی اور جیل میں اسیر ایک قیدی کرچکا ہے یعنی اینڈی بے گناہ ہے۔جب وہ یہ معلومات جیلر تک پہنچاتا ہے تو وہ بات نہیں سنتا۔ اینڈی اس کی منی لانڈرنگ سے متعلق بات کرتا ہے تو اسے ایک بار پھر قید تنہائی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ٹومی کو جیل سے فرار کا الزام لگا کر گولی ماردی جاتی ہے۔

اینڈی منی لانڈرنگ میں مزید معاونت فراہم کرنے سے انکار کرتا ہے تو جیلر لائبریری کو تباہ کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔آخر کار کچھ عرصہ بعد اینڈی کی قید تنہائی ختم کردی جاتی ہے تو وہ ایلس ریڈنگ کو کہتا ہے کہ یہاں سے نکلنے کے بعد ہم بحر اوقیانوس کے قریب واقع میکسیکو کے ایک خوبصورت ٹائون میں رہیں گے اور بہت اچھی زندگی گزاریں گے۔اگلے روز جب قیدیوں کو حاضری کیلئے بلایا جاتا ہے تو محافظوں کو پتہ چلتا ہے کہ اینڈی اپنے سیل میں نہیں ہے۔وہاں دیوار پر نصب خاتون کا پوسٹر ہٹایا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اینڈی مسلسل 19سال تک ایک ہتھوڑی کی مدد سے سرنگ کھود کر سیورج کے پائپ کے راستے فرار ہوچکا ہے۔یہ فلم مسیحی تصوف سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے، بحر اوقیانوس کے اس دلکش ٹائون کو دراصل جنت یا بہشت کے انداز میں پیش کیا گیا ہے اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ مشکلیں ،مصیبتیں اور پریشانیاں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں ،ان سے گھبراکر مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ایک دن آپ اس جہنم سے نکل کر اپنے خوابوں ،خیالوں ،آرزوئوں اور خواہشوں کی جنت میں ضرور پہنچ جائیں گے۔لیکن میرے نزدیک اس فلم کا سب سے منفرد کردار جیل کا سب سے پرانا قیدی Brooks Hatlenہے جو پچاس سال قید میں گزارنے کے بعد رہا ہوتا ہے تو باہر کی دنیا میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرپاتا۔چونکہ اسے جیل کے در ودیوار ،معمولات ،مشغولات اور سرگرمیوں سے پیار ہوجاتا ہے اور وہ اس جگہ سے بہت زیادہ مانوس ہوچکا ہوتا ہے اسلئے اسے باہر کی دنیا اب اچھی نہیں لگتی ۔اسے محسوس ہوتا ہے وہ جیل سے رہا نہیں ہوا بلکہ اسے ایک بڑے قید خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔وہ اس قدر بددل ہوتا ہے کہ ایک دن پھندا لے کر خود کو زندگی کی قید سے آزاد کرلیتا ہے۔جب سے پاکستان بنا ،ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔شاید ہمیں معاشی مشکلات اور دیگر مسائل سے اس قدر لگائو ہوچکا ہے کہ اب اگر یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا تو ہم یہ خوشی برداشت نہیں کرپائیں گے اور مرجائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ ہم وطن عزیز کو نازک ترین دور سے نکلنے نہیں دیتے۔

تازہ ترین