• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان کے بعد راجاؤں مہاراجاؤں کا دور تو ختم ہوگیا لیکن ہماری سیاسی جماعتوں میں اسی دور کا عکس نظر آتا ہے۔گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کو پارٹی کا سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مقرر کروایا جس سے سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر اسی بحث کا آغاز ہوگیا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے کہ پاکستانی سیاست میں شامل ہو چکا موروثیت کا عفریت جان کیوں نہیں چھوڑ رہا؟سیاسی جماعتوں پر موروثیت کے سائے نے ہمارے دیمک زدہ سیاسی نظام کو مزید بدصورت بنا دیا ہے۔یہ کیسا نظام ہے جس میں مخلص اور پڑھے لکھے سیاسی کارکنان اپنی ساری زندگی سیاسی جماعتوں کیلئے صرف کرتے ہیں لیکن وہ تحصیل، ضلع،یا ڈویژن کی سطح سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ان کے بال سفید اور کمر خمیدہ ہو جاتی ہے، ان کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے،لیڈروں کے نعرے لگا لگا کر انکے گلے خشک ہو جاتے ہیں،جب قربانی دینے کی باری آتی ہے تویونین کونسل، تحصیل، اور ضلع میں بیٹھا ہوا کارکن پارٹی کو یاد آتا ہے لیکن جب پارٹی عہدے دینے کی باری آتی ہے تو وہی مراعات یافتہ طبقہ یا لیڈر کی اولاد پردۂ اسکرین پر نمودار ہوتی ہے اور تمام سیاسی کارکنوں کا منہ چڑاتے ہوئے نہ صرف ان پر نافذ ہو جاتی ہے بلکہ انکے سیاہ و سفید کے مالک بھی بن جاتی ہے۔

پاکستان کی صف اول کی تمام سیاسی جماعتیں اسی بیماری کا شکار ہیں۔میاں محمد نواز شریف جب برسر اقتدار آئے تو نہ صرف ان کے بھائی وزیر اعلیٰ بنے بلکہ انکے بھتیجے، بھانجے اور کزن بھی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے۔ہماری تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ ہےاور یہ منظر بھی تاریخ کی نگاہوں میں محفوظ ہے کہ باپ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہے تو بیٹا صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر۔ فیصلہ سازی کے وقت بھی شاہی خاندان کے احکامات پر عمل ہوتا ہے۔ یہی صورتحال پاکستان پیپلز پارٹی میں ہے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو کم سنی کے باوجود پاکستان کے اہم ترین عہدے پر فائز ہے۔اسلام کا نام لینے کی دعویدار جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے بھی اگر کسی کو اپنی جانشینی کے لیے منتخب کیا تو وہ ان کا صاحبزادہ ہے۔عوامی نیشنل پارٹی میں بھی ولی خان کے بعد اسفندیارولی اور پھر ان کا بیٹا پارٹی کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے۔موروثیت سے متعفن ماحول میں تحریک انصاف یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ نہ تو عمران خان کا باپ پارٹی کا بانی تھا اور نہ ہی انہوں نے اپنی اولاد کو اپنا سیاسی وارث نامزد کیا ہے۔

جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم بھی بہت حد تک موروثیت کے جراثیم سے محفوظ ہیں۔ محترمہ مریم نواز کے چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر نامزد ہونے کے بعد اس جماعت میں اپنی ساری عمر صرف کرنے والے رہنما انگشت بدنداں ہیں۔شاہد خاقان عباسی جو اس سے قبل سینئر نائب صدر تھے، ان کیلئے شاید کوئی اور عہدہ تخلیق کیا جارہا ہے۔ سیاست کے میدان میں اپنی ساری جوانی صرف کرنے والا خواجہ سعد رفیق بھی اپنی زبان بند کرکے اس فیصلے پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہے۔یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک خاندان حکمرانی کیلئے پیدا ہوا اور باقی سارے کارکنان انکی غلامی کرنے کیلئے منتخب کیے گئے۔ معلوم نہیں یہ سیاہ دور کب ختم ہوگا جب سیاسی غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی،جب سیاسی شعور مستحکم ہوگا،جب نوجوانوں کے ذہن سے غلامی کا خول اترے گااوروہ اپنے حق کیلئے کھل کر بول سکیں گے۔نسل در نسل حکمرانی کرنے کا دور تو پوری مہذب دنیا میں ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کانگریس کے راہول گاندھی نے خود کو صدارت سے علیحدہ کرکے ایک غیر گاندھی شخص کو صدر منتخب کیا ہے اور وہاں پر گزشتہ دس سال سے بھارتیہ جنتا پارٹی صرف اسی وجہ سے برسراقتدار ہے کہ وہ موروثی سیاست کیخلاف نعرہ لگا کر میدان میں اتری ہے۔ پاکستانی سیاست میں بھی اسی طرح کا علم بغاوت بلند کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی صف اول کی سیاسی جماعتوں میں اس وقت تحریک انصاف واحد جماعت ہے جو موروثیت کے اثرات بد سے محفوظ ہے۔یہاں تک کہ عمران خان نے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو نہ تو پارٹی ٹکٹ دیا ہے اور نہ ہی کسی کو پارٹی عہدے سے نوازا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔نسل در نسل حکمرانی کا جادو کچھ اس طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے جناب اسحاق ڈار منتخب کیے گئے جو میاں محمد نواز شریف کے سمدھی ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں ان کی کارکردگی دیکھ کر ایک معروف لکھاری کا یہ فقرہ موزوں معلوم ہورہا ہے کہ پاکستان کیلئےاس وقت موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ خطرناک اسحاق ڈار ہیں۔ان کی پالیسیوں کی بدولت پاکستان میں زرِمبادلہ کے ذخائر گزشتہ آٹھ برسوں میں سب سے کم ترین سطح پر آ چکے ہیں۔وفاقی حکومت نے ٹیکس کے جو اہداف مقرر کیے ہیں ان میں 170 ارب روپے کی کمی آ چکی ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر کو رواں مالی سال کا ٹیکس ہدف درآمدات میں کمی کے لحاظ سے 7470 ارب کی بجائے 7300ارب روپے مقرر کرنا پڑا ہے۔ حکومت انتہائی ڈھٹائی کیساتھ معیشت کی بحالی پر مشتمل جھوٹے اعدادو شمار اخباری اشتہارات کے ذریعے عوام تک پہنچا رہی ہے۔ اب پوری حکومت جنیوا کانفرنس کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے کہ شاید دم توڑتی معیشت کو کچھ آکسیجن میسر ا ٓسکے۔معمولی ذاتی خواہشات کی تکمیل کیلئے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنیوالے مراعات یافتہ طبقے کی نااہلی کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے اور ابھی نہیں معلوم نہیں کہ شاہی لاڈلوں کی ناز برداری کے لیے قوم مزید کتنی قربانی دے گی۔

تازہ ترین