• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادھر ادھر کی بے مقصد باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ہم اللہ رکھا کی آتم کتھا یعنی آپ بیتی جاری رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار ہمیں اپنا نام تک یاد نہیں رہتا۔ اسلئے آپ کو یاددلادوں کہ اللہ رکھا ابن رب راکھا سرکاری ڈرائیور ہے۔ جیسے عام طور پر تصور کیا جاتا ہے، اللہ رکھا سرکار نہیں چلاتا، سرکار غیبی ہاتھ چلاتا ہے۔ اللہ رکھا سرکاری گاڑی چلاتا ہے۔ اسی نکتہ کو آپ کو ذہن نشین کرنا ہے۔ اسی میں فلسفے کا نچوڑ ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے سن لیجئے۔ اللہ رکھا ابن رب راکھا ڈرائیور ہے۔ وہ سرکار نہیں چلاتا۔ وہ سرکار کی گاڑی چلاتا ہے۔ یا درہے کہ معاشی طور پر ہمارے ملک کی طرح مستحکم ممالک کوبھی ایک غیبی ہاتھ چلاتا ہے۔ اس غیبی ہاتھ کے بار ے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ جولوگ جاننے کی جستجو کرتے ہیں، اسکے بعد وہ اپنے آپ کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ میری التجا ہے کہ آپ اپنے آپ کو اللہ رکھا ابن رب راکھا کی آتم کتھا یعنی آپ بیتی تک محدود رکھیں۔ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں مت پڑیں۔اللہ رکھا ابن رب راکھا کی آپ بیتی چونکہ میرے ہتھے لگ گئی ہے اس لئے میں نے اللہ رکھے کی آتم کتھا ایڈٹ کرنے کا نیک کام اپنے نام محفوظ کرلیا ہے۔ کئی اسباب کے علاوہ آتم کتھا میں نے اس لیے بھی ایڈٹ کی ہے کہ میرے وجود میں موہن جو داڑو کرکٹ ٹیم کا وکٹ کیپر بیٹس مین بیٹھا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بیٹنگ کرنے کےلئے آپ کے پاس چھیاسٹھ فٹ کی جگہ ہوتی ہے۔ اس جگہ کو کرکٹ کی زبان میں پچ کہتے ہیں۔ پچ کی لمبائی بائیس گز یعنی چھیاسٹھ فٹ ہوتی ہے۔ کتھا سنانے کے لئے مجھے پچ ملی ہوئی ہے۔ پچ لامحدود نہیں ہوتی۔

زندگی کی طرح پچ کی لمبائی چوڑائی مقرر ہوتی ہے۔ پچ کی لمبائی چوڑائی کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ رکھے کی آپ بیتی یعنی آٹو بائیو گرافی آپ کو سنانی ہے۔ میں نے کافی کانٹ چھانٹ کی ہے اللہ رکھے کی آتم کتھا میں۔ آپ ایڈٹ کی ہوئی کتھا سنیے۔’’ میں ایک جوائنٹ سیکرٹری کا ڈرائیور ہوں۔ صبح نوبجے جوائنٹ سیکرٹری صاحب بن ٹھن کر دفتر جانے کے لیے بنگلے سے نکلتے ہیں۔ میں صبح چھ بجے جاگ جاتا ہوں۔ صاحب کو سیکرٹریٹ لے جانے سے پہلے مجھے صاحب کے ایک بیٹے کو انجینئرنگ یونیورسٹی چھوڑنا پڑتا ہے۔ صاحب کی ایک بیٹی کو میڈیکل یونیورسٹی ڈراپ کرنا ہوتا ہے۔صاحب کے دوچھوٹے بیٹوں کو اسکول لے جانا ہوتا ہے۔ اس کا م سے فارغ ہونے کے بعد گاڑی چمکا کر پورچ میں کھڑی کردیتا ہوں۔ بیگم صاحبہ بہت دیالو ہیں۔ نوکر کے ہاتھوں ناشتے میں کڑک چائے اور ڈبل روٹی کے دوسلائس بھیجتی ہیں۔ کبھی کبھار رات کے کھانے سے بچا کھچا سالن پیالی میں انڈیل کر بھیج دیتی ہیں۔اکثر اوقات صاحب کو گاڑی تک چھوڑنے آتی ہیں۔ بیگم صاحبہ جب بھی صاحب کو گاڑی تک چھوڑنے آتی ہیں، مجھے کرنے کو دوچار کام بتادیتی ہیں۔ دیکھو اللہ رکھے، صاحب کو دفتر چھوڑنے کے بعد سیدھے میرے درزی کے پاس جانا۔ اس کے پاس میرے سِلے ہوئے چھ جوڑے پڑے ہوئے ہیں، لے آنا۔ اور ہاں…مسز تنویر سے میرے لئے اچار کی بوتل لے آنا۔ مستری کا کارخانہ تمہیں راستہ میں پڑے گا۔ اس کے کان کھینچنا۔ گاڑی ٹھیک کرنے میں بدبخت نے دس دن لگا دیے ہیں۔صاحب نے محکمہ کی چار گاڑیاں اپنے کنٹرول میں رکھی ہوئی ہیں۔ وہ چار گاڑیاں ان کے بیٹے بیٹیاں چلاتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں اکثر خراب رہتی ہیں۔ مستری کے پاس کھڑی رہتی ہیں۔ مستری ، بچوں اور پیٹرول پمپ والوں کے درمیاں کبھی پکڑ میں نہ آنے والا گٹھ جوڑ بنا ہوا ہے۔ ہر گاڑی کے کھاتے میں ڈیڑھ سولیٹر پیٹرول دکھایا جاتا ہے۔ بچوں کو گھر بیٹھے اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے۔

جوائنٹ سیکرٹری صاحب دوپہر کے کھانے یعنی لنچ پر تقریباً روزانہ مدعو ہوتے ہیں۔ دعوت دینے والے ان کے دوست نہیں ہوتے۔ وہ زیادہ ترکاروباری لوگ ہوتے ہیں۔ جوائنٹ سیکرٹری صاحب کے ایک دستخط سے ان کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ جب تک صاحب لنچ اور لنچ کے بعد سود مند بات چیت میں مصروف رہتے ہیں، تب تک میں صاحب کے ہونہاروں کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے لے کر گھرپر چھوڑ دیتا ہوں۔ اگردوست وغیرہ ہمنوا ہوں تو پھر نونہار برگر شرگر کھاتے، کافی اور شیکس پیتے ہوئے گھر لوٹتے ہیں۔ دیر ہوجائے تو صاحب کی اچھی خاصی ڈانٹ مجھے کھانی پڑتی ہے، اس دوران اگر بیگم صاحبہ کے کام میں تاخیر ہوجائے یا پھر کوئی خطا سرزد ہوجائے تو پھر میری شامت کا آپ اندازہ تک نہیں لگا سکتے۔ بیگم صاحبہ آم کے اچار کی متوالی ہیں۔ کھانے کے ساتھ دنیا بھر کے اچاروں کا مزہ چکھنے کے لئے بیگم صاحبہ کی خاتون دوستوں کے ہاں رات کے کھانے پر بھانت بھانت کے عمدہ اچاروں کی بہتات ہوتی ہے۔ بیگمات رات دیر گئے تک اچاروں کا مزہ چکھتی رہتی ہیں ۔ میں ان کی کوٹھیوں کے باہر آدھی رات تک اونگھتا رہتا ہوں۔ ان کو خیروعافیت سے گھر پہنچانے کے بعد مجھے چند لمحوں کیلئے آنکھ موندنے کی فرصت ملتی ہے۔ اچانک صبح کے پانچ بجنے کا الارم لائوڈ اسپیکر سے بجنے لگتا ہے۔ جدید دور کا الارم جوائنٹ سیکرٹری صاحب نے سرکاری خرچے سے لگوایا ہے تاکہ اگر بائیس گھنٹے لگاتار ڈرائیونگ کرنے کے بعد تھکن سے ٹوٹ کر مرجائوں تو لائوڈ اسپیکر سے الارم کی آواز سن کر اچانک زندہ ہوجائوں اور صاحب، بیگم صاحبہ اور ان کے ہونہاروں کی خدمت میں جت جائوں۔ کہتے ہیں کہ میں سرکاری ڈرائیور ہوں۔ اصل میں، میں جوائنٹ سیکرٹری صاحب اور ان کے کنبے کا ڈرائیور ہوں، البتہ تنخواہ مجھے سرکار بہادر کی جانب سے ملتی ہے۔

تازہ ترین