• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لیاقت صاحب اس متذکرہ کالم پر مزید رقمطراز ہیں،’’بھٹو کی سیاست اور طرز حکمرانی کا میں قطعاً مداح نہیں ہوں بلکہ شدید ناقد ہوں اور میری تنقید کی وجہ سے فیس بک پر کچھ احباب ناراض ہوجاتے ہیں لیکن ان کی محبت ہے کہ ناراضی کے باوجود تعلق قائم رکھتے ہیں لیکن بھٹو سے نفرت کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ جنرل ضیا جیسے آمر اور اس کے سیاسی و نظریاتی لواحقین کی حمایت کی جائے۔آمدم بر سر مطلب دو قومی نظریہ،بھارت دشمنی اورمسلم امہ کے تصورات کو پرموٹ کرنے میں آغا شاہی جیسے بیوروکریٹس کا رول بہت نمایاں تھا۔ وہ محض سرکاری افسر نہیں بلکہ ریاست کے نظریہ دان تھے۔آغا شاہی کے بارے میں لگے ہاتھوں ایک قصہ بھی سن لیجئے۔ میں جنوری 1990میں بھارت گیا تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مارکسسٹ) کے ایک رہنما سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جنھوں نے دوران گفتگو بتایا کہ آپ کے وزیر خارجہ آغا شاہی جب گزشتہ دنوں بھارت آئے تو انھوں نے مجھے ڈھونڈ نکالا کیونکہ وہ بنگلور میں میرے ہم جماعت تھے۔ملتے ہی کہنے لگے یار مجھے کناڈا میں بات کئے عرصہ ہوچکا ہے میں نے سوچا تم سے اپنی مادری زبان میں بات ہوسکتی ہے اور طویل ہوسکتی ہے۔ آغا شاہی جو اپنی مادری زبان بولنے کیلئے اتنے بےتاب تھے، پنجابیوں اور دیگر منقسم پاکستانیوں کو باہم ملنے ملانے اور اپنی مادری زبانوں میں بات چیت کرنے کے مواقع فراہم کرنے کیلئے انھوں نے کبھی کوئی قدم نہ اٹھایا ۔ یہ سب نام نہاد دانشور تھے جو بہت اچھی انگریزی بولنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اسے ہمارا عام آدمی صلاحیت کا پیمانہ سمجھتا ہے، اچھا لباس زیب تن کرتے تھے۔پاکستان ان کیلئے شکار گاہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا ،جہاں وہ مالی آسودگی کی خاطر رہتے تھے’’واضح رہے کہ کامریڈ لیاقت علی ایک محقق کی طرح بحر علم میں غوطہ زن رہتے ہیں اور اکثر انمول موتی ڈھونڈنکالتے ہیں البتہ ان کا تنقیدی نشتر بعض اوقات کار تریاقی سے آگے نکل جاتاہے، درویش نے لیاقت صاحب کو آدھا جواب تو اسی وقت ان الفاظ میں دے دیا تھا، “آپ نےآغا شاہی کے متعلق جو فرمایا ہے وہ درست ہے ،آغا شاہی کیلئے میرے دل میں نرم گوشے کی وجہ ایک تو شاید میری نام نہاد عوامی لیڈر سے بڑھی ہوئی نفرت تھی، یہ نوعمری کی بات ہے جو اب تک یاد ہے کہ چند ایک مواقع پرآغا شاہی نے انڈیا ، انڈین سولائزیشن، ہندی زبان حتی کہ ساڑھی کے پہنا و ے یا لباس کی اچھے لفظوں سے ستائش یا تحسین کی تھی ،پاک و ہند دوستی اور تجارتی تعلقات کا بھی کہا تھا، ناچیز کی کیمونسٹوں سے مغائرت و حقارت اتنی ہی رہی ہے جتنی اپنے مولوی صاحبان سے، دونوں نظریہ جبر کے علمبردار تھے، بچپن میں ہی یہ تمنا ہوتی تھی کہ انڈیا سوویت یا سوشلسٹ بلاک چھوڑ کر امریکن بلاک میں آ جائے، آغا شاہی کی غیر جانبدار تحریک میں دلچسپی کے باوجود ان کی امریکہ نوازی ہمیشہ بہتر لگی اور ولی خاں صاحب کے یہ الفاظ گویا دل پر لکھے ہوئے تھے کہ’’ اس سویلین ڈکٹیٹر کو ہٹانےکیلئے شیطان کی مدد بھی لینی پڑی تو لیں گے‘‘بہرحال یہاں کچھ تفصیل زیر بحث شخصیت کے حوالے سے،جناب آغا شاہی کا تعلق انڈین ریاست میسور(موجودہ کرناٹک) کے شہربنگلور سے تھا ان کے والد گرامی وہیں انگلش اسکول کے پرنسپل تھے ،آغا شاہی کی تعلیم فزکس اور میتھ میں تھی سو وہیں انڈین ا نسٹیٹیوٹ آف سائنس کو جوائن کر لیا، لیکچرار بھی رہے لیکن والد صاحب اس سے مطمئن نہیں تھے سوانہوں نے 1944ءمیں انڈین سول سروس جوائن کر لی، ان کی پیدائش 25اگست 1920ءکی تھی اوران کی پہلی پوسٹنگ سندھ میں ہوئی یہی وجہ تھی کہ پارٹیشن کے بعد انکی فیملی 1947میں کراچی منتقل ہوگئی۔یہاں انہو ں نے چیف منسٹر غلام حسین ہدایت اللہ اور ایوب کھوڑو صاحبان کے ساتھ کام کیا مابعد کمشنر بھی رہے، آغا شاہی نے فارن آفس میں خدمات سر انجام دیں واشنگٹن اور بیجنگ میں سفارتکاری کے علاوہ وہ مدتوں پاکستان کے مستقبل مندوب کی حیثیت سے اقوام متحدہ (نیو یارک )میں خدمات سر انجام دیتے رہے یہاں انھوں نے سر ظفر اللہ خاں، اور پطرس بخاری صاحب کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین