• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہ جنرل ضیاء الحق نہیں آپ کے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے آغا شاہی کی 1973میں بطور فارن سیکرٹری پاکستان تعیناتی کی تھی اور 5جولائی 77ء کو جنرل ضیاء کے بھٹو کا تختہ الٹنے تک وہ اس ذمہ داری پر فائز رہے، یہ درست ہے کہ 1978میں ضیاء الحق نے بھی ان کی خدمات سے مستفید ہونے کیلئے ان کی بطور وزیر مملکت برائے خارجہ تعیناتی کی، اگر آپ محض اس تعیناتی کی وجہ سے ان کی مخالفت کریں گے تو پھر سوائے آدھی پی پی کے پاکستان کی تقریباََ سبھی سیاسی پارٹیوں نے اس حکومت کا کسی نہ کسی حوالے سے ساتھ دیا جن میں خان عبدالولی خان جیسے بے باک اور نڈ ر قومی رہنما بھی شامل تھے، نواز شریف آج ہمارے قائد ِ جمہوریت ہیں جو آمریت مخالف جدوجہد کا سمبل بن چکے ہیں۔اے کے بروھی جیسے ملک کے ممتاز قانون دان کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ یہ کہہ د یناکہ آغا شاہی فوجی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے امریکی بلاک کا حصہ بنے رہے اور سیٹو سینٹو جیسے فوجی معاہدوں کا پارٹ رہے درست نہیں کیوں کہ یہ معاہدے جنرل ضیاء نہیں، جنرل ایوب کے مارشل لائی دور کے ہیں ،جب ان کی کسی ایسی پالیسی پر اثر انداز ہونے والی حیثیت نہ تھی۔ ایوبی فوجی حکومت کا اصل کارندہ آغا شاہی نہیں ذوالفقار علی بھٹو تھا، جو اس فوجی ڈکٹیٹر کا صرف کان، آنکھ، اور زبان ہی نہیں تھابلکہ اسے ڈیڈی کہتا تھا۔لہٰذا آغا شاہی کو اس سلسلے میں مطعون کرنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ اس روحانی فرزندکی صفائی میں کوئی غزل چھیڑی جائے۔ میرے دوست کو معلوم ہوگا کہ فوجی ڈکٹیٹر ضیا ء الحق نےتاشقند رازوں جیسے کسی جھوٹے و جعلی واویلے پر مگرمچھ کے آنسو بہانے پر نہیں، فارن پالیسی کے حوالے سے واضع اختلافات پر انہیں 1982میں وزیر خارجہ کے عہد ے سے ہٹا کر صاحبزادہ یعقوب علی خان کو ان کی جگہ اپنانیا وزیرخارجہ تعینات کیا تھا، اختلاف کی بنیادی وجہ نان الائین مومنٹ کی طرف ان کاواضع جھکاؤ تھا جسے وہ او آئی سی سے زیادہ اہمیت دے رہے تھے، دوسرے سوویت یونین کے متعلق پاکستان کی سخت پالیسی کو بدلتے ہوئے وہ آنے والے وقت میں پاکستان کو جہادی تماشے سے بچانےکیلئے اس سے اچھے تعلقات کے خواہشمند تھے وہ امریکی دوستی کو قائم و دائم رکھتے ہوئے یہ چاہتے تھے کہ ہمیں روس سے خواہ مخوہ کی دشمنی سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی خارجہ پالیسی کو بشمول بھارت معتدل و متوازن بنانا چاہیے کوئی بھی غیر جانبدار دانشور بطور وزیر خارجہ بھٹو اور آغا شاہی کی کارکردگی، سفارت کاری اور سفارتی بیانات کا منصفانہ جائزہ لیتے ہوئے اس نوع کی پرکھ کر سکتاہے کہ پاکستان کے خارجہ تعلقات کی بربادی اور بہتری کس کے کھاتے میں جاتی ہے، آغا شاہی نے سستی عوامی مقبولیت کیلئے کسی مداری جیسی ڈگڈگی کبھی نہیں بجائی یہ کہ ہم انڈیا سے ہزار سال لڑیں گے یا گھاس کھا لیں گے لیکنایٹم بم ضرور بنائیں گے، یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ آغا شاہی اول و آخر ایک سفارت کار تھے،پالیسی سازی میں ان کی وہ حیثیت کیسے ہوسکتی ہے جو کسی سیاست دان یا عسکری لیڈر کی ہوسکتی ہے، انہوں نے کبھی خود کو یہاںہنری کسنجر کی حیثیت سے پیش نہیں کیا اس سلسلے میں مزید تفہیم کیلئے ان کی وہ تقریر ملاحظہ کی جاسکتی ہے جو ان کے ضیاالحق سے اختلافات کا باعث بنی۔ اس سلسلے میں کم از کم کسی کا مریڈ کو تو اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں بنتی ۔وزارت خارجہ سے مستعفی ہونے کے بعد 82ء سے 93ء تک اقوام متحدہ میں ان کا رول نسلی امتیاز اور ہیومن رائٹس کے حوالے سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے وہ اس سلسلے میں یو این کی ہر دو کمیٹیوں کے چیئر مین اور کو چیئر مین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے، یو این میں کی گئی ان کی تمام تقاریر کا ریکارڈ موجود ہے ،اس کا تقابل ہر ہر حوالے سے اس عوامی لیڈر اور وزیر خارجہ کی تقاریر سے کیا جاسکتا ہےجو اس نے پولینڈ کی قرار داد پر کیا ، سفارت کاری کی تاریخ میں وہ ایک غیر سفارتی وغیر پارلیمانی ہی نہیں بداخلاقی کے معنوں میں دیکھا جائےگا جس کا نقصان اول و آخر پاکستان کو ہوا۔ اپنی سستی شہرت اور جعلی مقبولیت کیلئے یہاں کون کون سے ڈھونگ اور ڈرامے نہیں کیے جاتے رہے، تب تو چلیں کہا جاسکتا ہے، پروپیگنڈہ یا حالات کی دھول میں لوگوں پر سچائی واضح نہیں تھی، اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد تو کسی نوع کا ابہام نہیں رہنا چاہیے کہ کس نے کیا کیا؟ اب تمامتر دھندچھٹ چکی ہے اور ہر چیز روشن ہے۔ 1993ء میں آغا شاہی، انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز ISSکے چیئر مین بنائے گئے اور اپنی وفات 6ستمبر 2006تک وہ اس ذمہ داری پر فائز رہے۔اس ادارے کی علاقائی امن و سلامتی اور پاکستانی ترجیحات کے حوالے سے اپنی خدمات ہیں جن میں انڈیا سے بہتر تعلقات بنانا بھی شامل ہے، درویش اس حوالے سے کئی آرٹیکلز تحریر کر چکا ہے اور اس کا ایقان ہے کہ پاکستان کیلئے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ہندوستان سے اپنی لاحاصل دشمنی کو جتنی جلدی ہوسکے دوستی میں بدلے بالخصوص انڈیا کی طرح پاکستان بھی بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دیتے ہوئے اپنے تجارتی تعلقات چائنہ سے بھی زیادہ بہتر بنائے انڈیا چائنا سرحدی اختلافات و تنازعات کو سامنے رکھتے ہوئے، 1962ء کی جنگی تلخیوں کے پس منظر میں ذرا ایک نظر ہر دو ممالک کے تجارتی حجم پر ڈال لیں پاکستانی ذمہ داران کے متعلق سوائے جہالت اور عوام دشمنی کے کچھ نہیں ملے گا ۔آج اسی بھٹوکا نواسہ اسی عہدے پر بیٹھا وہی کچھ کررہا ہے جو 60 کی دہائی میں اس کے نانا حضور کر رہے تھے۔ درویش کا تو پاکستانی سیاست و قیادت کی صلاحیت مانپنے کا پیمانہ ہی یہ ہے کہ جو جتنی انڈیا دشمنی دکھاتا ہے وہ در حقیقت پاکستان سے مخلص نہیں۔

تازہ ترین