• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈرامہ نگار جاوید صدیقی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے آرٹس کونسل کراچی میں تقریب

فوٹو: جنگ
فوٹو: جنگ

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام اسکرین و ڈائیلاگ رائٹر و ڈرامہ نگار جاوید صدیقی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب میں جاوید صدیقی نے کہا کہ  ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ میری شناخت بن گئی لیکن میں اپنی شناخت کچھ اور بنانا چاہتا ہوں۔

تقریب سے خطاب میں جاوید صدیقی نے کہا کہ میں تو صحافی تھا لیکن اچانک فلمیں لکھنے لگا۔

جاوید صدیقی نے کہا کہ ہماری طرف کہا جاتا ہے کہ بچے فرشتے تقسیم کر دیتے۔ اس لیے میں نے لکھا کہ فرشتوں کے دل میں کیا آئی مجھے اس گھرانے میں پیدا کیا جیسے محمد علی جوہر، شوکت علی جوہر میرے دادا اور کئی بڑے لوگ جن کی صحبت میں، میں نے تربیت حاصل کی اور آج آپ کے سامنے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ میری شناخت بن گئی ہے لیکن میں اپنی شناخت کچھ اور بنانا چاہتا ہوں۔

جاوید صدیقی کا کہنا تھا کہ فلم کی کہانی لکھنے کا سوچا بھی نہیں تھا، آج سوچتا ہوں کہ زندگی ہماری مرضی پر نہیں بلکہ کسی اور قوت کی مرضی سے چلتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں صحافت میں تھا، بھارت میں ایمرجنسی کے دوران ضرورت پڑی کہ ایک فلم کی کہانی لکھنی ہے اور یہ کہانی وہ لکھے گا جو فلمی لکھاری ہو، تو میرے نام کی تجویز ہوئی لیکن تین منٹ کی ملاقات میں میرا انتخاب ہوگیا۔ اس وقت میرے ہاتھ پاﺅں ٹھنڈے ہوگئے۔ میں نے ڈائیلاگ لکھے اور آپ کو پسند آئے۔

جاوید صدیقی کا کہنا تھا کہ میرے نثر غیر شعوری ہیں، بہترین نثر سے نظم نکلتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے جو کچھ بھی لکھا وہ میں نے اپنے لیے لکھا۔ میرے خاکے میری اپنی کہانی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں لکھنا چاہیے لیکن میں سمجھتا ہو کہ لکھنے والے کو چھوٹا نہیں ہونا چاہیے۔

برِ صغیر کے نامور ادیب کا کہنا تھا کہ 1960ء میں جب میں دلی پہنچا تو ترقی پسند تحریک اتنی متحرک نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ لوگ بہت بڑے تھے جو کسی میں امتیاز نہیں کرتے تھے۔ جب میری شادی ہوئی تو سلطانہ آپا کے اکاؤنٹ میں 700 روپے تھے جس میں سے 6 سو روپے مجھے دے دیے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ سارے کامریڈ نے مدد کی اس طرح چندے میں شادی ہوگئی لیکن جو ہوا اچھا ہوا، بیوی بہت اچھی ملی۔

اپنے بچوں کے بارے میں جاوید صدیقی نے کہا کہ سب باصلاحیت ہیں تاہم سمیر میری ایکسٹینشن ہیں۔

اس موقع پر فریدہ جاوید نے کہا کہ جاوید لکھاری ہی نہیں بہت اچھا انسان بھی ہیں، میں نے ان کو پسند کیا اور شادی ہوئی جس پر میرے بھائی دو سال تک ناراض رہے۔

زہرا نگاہ نے کہا کہ جب میں نے جاوید صدیقی کی تحریر پڑھی تو یقین تھا کہ ایک دن ان سے ملاقات ضرور ہوگی۔ جاوید نے بہت لکھا لیکن ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ لوگ نہیں بھولتے۔

انہوں نے کہا کہ زبان تو ان کو ورثہ میں ملی محمد علی جوہر سے تعلق تھا۔ انسانوں کے بہت سارے کارنامے ہیں جن کو موت بھی فنا نہیں کر سکتی ان میں جاوید بھی شامل ہیں۔ جاوید کا کام تنہا کام ہے ٹیم ورک نہیں۔

”شطرنج“ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس کے ڈائیلاگ لکھنے میں آپ کو کتنی تکلیف اٹھانی پڑی جس پر زہرا نگاہ نے کہا کہ جاوید صدیقی نے نثر کو نظم میں ڈھال دیا۔ بعض جملوں میں غزل کا شعر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے لیے دعا بھی اور مبارک بھی۔

ضیاء محی الدین نے جاوید صدیقی کے خاکوں کی مخصوص انداز میں پڑھنت کی۔

صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے کہا کہ میں چاہتا تھا کہ ہمارے عہد کا یہ بڑا آدمی آرٹس کونسل تشریف لائے۔ آج ہمارے اسٹیج پر برصغیر کے بڑے لوگ بیٹھے ہیں جو منقسم ہندوستان کے رابطہ کی زنجیر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جاوید صدیقی کے ساتھ محبت کے جو رشتے ہیں ان کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔

احمد شاہ نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے حالات اچھے ہوں گے اور دونوں ممالک کے ادیب ان ممالک کے عوام کے ساتھ مل سکیں گے۔

اس سے قبل جاوید صدیقی نے بیگم فریدہ اور صاحبزادے سمیر، بھتیجی عنایہ، ضیاءمحی الدین، زہرا نگاہ، فاطمہ حسن اور محمد احمد شاہ کے ہمراہ سالگرہ کا کیک بھی کاٹا۔

اس موقع پر کچھا کھچ بھرے ہال میں سامعین نے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں اور ان کو سالگرہ کی مبارکباد دی۔

انٹرٹینمنٹ سے مزید