• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں یہ کس کے نام لکھوں ،جو الم گزر رہے ہیں

مرے شہر جل رہے ہیں، مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے ،پس خنجر آزمائی

ہمیں قتل ہورہے ہیں، ہمیں قتل کررہے ہیں

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹے بیٹیوں۔ پوتے پوتیوں۔ نواسے نواسیوں۔ بہوئوں۔ دامادوں سے ملنے۔ ان کی سننے۔ اپنی سنانے۔ ان کے سوالات کے جوابات دے کر ان کو مطمئن کرنے کا دن۔ میری فرمائش یہ بھی ہے کہ اپنے گھر میں تو یہ ملاقات دوپہر کے کھانے پر رکھیں۔ یا اگر دیر سے اٹھتے ہیں تو ناشتہ+ ظہرانہ۔ انگریزی میں برنچ کرلیں اور نماز عصر کے بعد اپنے محلّے داروں سے تبادلہ خیال کریں۔ اس وقت ملک جس سنگین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ ہر پاکستانی پریشان ہے۔ ان دنوں میں اہل محلّہ کا آپس میں ملنا بہت ضروری ہے۔ لوگ ذہنی طور پر بہت تنائو میں ہیں۔ لا تعلقی نے ہمارے سماج کو جکڑ رکھا ہے۔ اس میں پیسہ سہارا دے رہا ہے نہ ہی رشتے دار۔ انسان اذیت ناک تنہائی کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسے میں زندگی سے بیزاری ہوجاتی ہے۔ خواب آور دوائوں کا ۔ منشیات کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ تنگ آکر بزرگ اپنی جان لینے میں عافیت جانتے ہیں۔معمولی معمولی تنازعات شدت اختیار کرتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے، پنچایتیں ہیں نہیں۔ کونسلر چیئرمین ہیں نہیں۔ کس سے جاکر فریاد کریں۔ پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے شریف لوگ گھبراتے ہیں۔ وہاں اجنبی مخلوق ملتی ہے۔ جو ہر فریادی کو ایک خزانہ سمجھتی ہے۔ ایک سائل کی مجبوریوں میں لاکھوں کا تاوان دیکھتے ہیں۔

پچھلے پانچ چھ مہینوں سے قائد اعظم کے شہر، مچھیروں کی بستی، محنت کشوں کے نگر، شاعروں، افسانہ نگاروں، ناول نویسوں، گلو کاروں، موسیقاروں، مصوّروں، تاجروں، صنعت کاروں کے مرکز۔ پاکستان کے ہر گوشے سے معاش کی تلاش میںآنے والے جواں سال پاکستانیوں کی امید گاہ۔ کراچی میں سینکڑوں جوانیاں مسلح ڈاکوئوں کی بے دریغ گولیوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ مقتولین میں ہر زبان بولنے والے ہیں۔ پاکستان کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

ایک چھوٹی سی خبر اخبار کے کسی کونے میں چھپ جاتی ہے۔ ایک اور نوجوان ڈکیتی میں مزاحمت پر ہلاک ہوگیا۔ چینلوں پر اینکر پرسن یہ دعویٰ کرتے ہوئے خبر سنارہا ہوتا ہے۔ ہم نے فوٹیج حاصل کرلی ہے۔ ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایک نوجوان کو عین گھر کے سامنے گولی مار دی گئی۔

کیا ہم میں سے کوئی ان المیوں پر ایک باپ۔ ایک بھائی۔ ایک بیٹے کی طرح سوچتا ہے کہ جس نوجوان کی مزاحمت پر ڈاکوئوں نے جان لے لی ہے۔ اس گھر پر کیا گزرتی ہے۔ ملک اس وقت معاشی بد حالی کا ویسے ہی شکار ہے۔ نوجوان بے روزگار ہورہے ہیں۔ کمپنی مالکان ایک دو مہینے کے نوٹس دے رہے ہیں۔ بعض دفاتر میں تو ایس ایم ایس کے ذریعے ہی ملازمت کے خاتمے کی اطلاع دی جارہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام پاکستانی کی قوت خرید سے بہت دور ہوگئی ہیں۔ ایسے میں کسی گھر کا کفیل اپنی دہلیز پر ہی خون میں نہلادیا جائے۔ تو بہنیں کیسے بین کرتی ہیں۔ مائیں کیسے سکتے میں آجاتی ہیں۔

ڈکیت بھی نوجوان ہیں۔ پاکستانی ہیں۔ پاکستانی پاکستانی کو ہلاک کررہے ہیں۔ یہ بھی کسی ماں کی آنکھوں کی چمک ہیں۔ باپ کے دل کا سکون ہیں۔ یہ ہتھیار اٹھانے پر کیوں مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کو نشہ پلاکر ان وارداتوں پر کون بھیجتا ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ ہسٹاریکل ریسرچ سے ستمبر سے جنوری تک کے کچھ اعداد و شُمار میں نے حاصل کئے ہیں۔ گزشتہ 8مہینوں میں 350 نوجوان ان جنونی ڈاکوئوں کی بے دریغ گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ قتل ہونے والوں کی عمریں 17 سے 40 سال تک کے درمیان ہیں۔ ان کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کے پاس زیادہ تر سواری موٹر سائیکل کی ہے۔ 32ہزار موٹر سائیکلیں چھینی گئی ہیں۔ ستمبر میں نشانہ بننے والوں میں 41 سالہ ذیشان افضل ایک دفتر میں انسانی بہبود کے منیجر تھے۔ بچوں کو آئس کریم کھلانے نکلے تھے۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں 17 سالہ طلحہ اسلم۔ اورنگی ٹائون میں 20 سالہ رضوان۔ جمشید روڈ پر 30 سالہ احمد رضا کار ڈیلر۔ بلوچ کالونی کے 30 سالہ عفان اویس۔ بہادر آباد کے 28 سالہ عفان خیر آباد کے امام محمد حفیظ اللہ۔ اپنے گھروں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ اکتوبر میں حافظ قرآن اسامہ ایوب ناظم آباد میں۔ منگھو پیر روڈ پر 25سالہ ممتاز حسین۔ ملک سوسائٹی کے 30سالہ ہلاکتیں بتائی گئیں۔ شہری ان وارداتوں سے تنگ آگئے ہیں۔ اجتماعی مزاحمت کے واقعات بھی ہورہے ہیں۔ ہجوم ڈاکوئوں کو خود سزائیں دینے لگے ہیں ۔نومبر میں بھی ڈاکوئوں کا نشانہ بننے والے 25 سے 41 سال کی عمروں والے تھے۔ ان میں دودھ فروش بھی تھے مختلف کمپنیوں کے سیلز مین۔ اور گھروں پر سامان پہنچانے والے موٹر سائیکل سوار۔ گلیم باف۔ دسمبر میں کورنگی میں 24سالہ قیوم عمر۔ ٹیچرز سوسائٹی کے 25سالہ ممتاز۔ 22سالہ سلمان علی۔ قانون کا طالب علم اظہر۔ 2023کا آغاز بھی جوان موتوں سے ہوا ہے سرجانی یارو گوٹھ کے سلمان۔ عوامی کالونی کے شاہد۔ سچل پولیس اسٹیشن کی حدود میں عبدالرزاق۔ نوررحمن۔ 35سالہ تاجر ویر بھان۔ نیو ایم اے جناح روڈ کے 28سالہ کار ڈیلر شاہ رخ۔ بہت سی وارداتیں۔ رپورٹ نہیں ہوتی ہیں۔ اخبار اہمیت نہیں دیتے۔ چینل بھی سرسری سمجھتے ہیں۔

کسی یونیورسٹی۔ کسی تحقیقی ادارے کسی میڈیا ہائوس نے نوجوانوں کے قتل کی اس خطرناک لہر پر تحقیق اور تجزیے کی زحمت نہیں کی۔ حالانکہ بعض صحافی بھی جان سے گئے ہیں۔ مہذب معاشرے تو ایک قتل پر ہی حرکت میں آجاتے ہیں۔ دانشور۔ علماء۔ اساتذہ سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اپنے نوجوانوں کو ڈاکو بننے سے کیسے روکا جائے۔ بات بے بات گولی چلانے کی عادت کیسے ختم کی جائے۔ پولیس آفیسرز۔ شہریوں کی میٹنگیں بلاتے ہیں۔

بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا

کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں

شہر قائد کی بستیاں۔ گلی کوچے۔ شاہراہیں۔ چورنگیاں۔ نوحہ کناں ہیں۔ مرا قلم مجھ سے سوال کررہا ہے کہ کیا اس منی پاکستان ،جنوبی ایشیا کے نوجوانوں کی آغوش بننے والی ساحلی بستی میں خون ناحق یونہی بہتا رہے گا۔ کوئی ہلاکتوں کی اس لہر کو روکے گا۔ کوئی سیاسی پارٹی ان نوجوانوں کو اپنا اثاثہ سمجھے گی۔ کوئی سیاسی سماجی رہنما۔ عالم دین۔ ادیب۔ شاعر ان ماتم کدوں میں جاکر ان نوجوانوں کی تعزیت کرے گا۔ جو تاریک راہوں میں مارے جارہے ہیں۔

تازہ ترین