• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج مجھے نوجوانوں سے باتیں کرنی ہیں۔ آپ اگرنوجوان نہیں ہیں تو پھر آپ کو فقیر کی باتیں سننے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ابھی تک لڑکپن میں لٹکے ہوئے ہیں تو پھر تھوڑا سا انتظار کیجئے۔ جب آپ لڑکپن کی سرحدوں سے نکل کر نوجوانی کی حدود میں پیر رکھیں گے تو تب فقیر کی لکھی ہوئی باتیں پڑھ لیجئے گا۔ فی الحال فقیر کی باتیں آپ کو مضحکہ خیز لگیں گی۔ لڑکپن میں بہت سی باتیں بے مقصد اور بے معنی محسوس ہوتی ہیں ۔ آپ اگرلڑکپن کی سرحد پارکرنے کے بعد جوانی کے عالم میں پہنچ چکے ہیں تو پھر آپ فقیر کی حکایتیں سن سکتے ہیں۔ معاملہ یوں ہے کہ نوجوانی اور جوانی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ نوجوانی میں آپ کبھی کبھار اپنے آپ کو جوان اور جوانی کے عالم میں آپ جب چاہیں خود کو نوجوان سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ غیر تحریری دستور ہے جو بن مانگے آپ کو مل جاتا ہے ۔ زبانی کلامی دستور سے آپ مرتے دم تک پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ روزِ اوّل سے جس دن سے ہم اس دنیا میں آتے ہیں، اسی دن سے زبانی کلامی اور غیر تحریری دساتیر کے ماتحت زندگی گزارتے ہیں۔ سنے سنائے زبانی،کلامی اورغیر تحریری دساتیر کے بارے میں پھرکبھی بات چیت ہوگی۔ فی الحال آپ کے ذہن میں پنپنے والے ایک سوال کا جواب سن لیجئے۔ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے زبانی کلامی اور غیر تحریری دستور کوئی نہیں لکھتا۔ مخمصوں کا شکار ہوتے ہوئے یہ مت سوچئے گا کہ سینہ بہ سینہ سرایت کرنے والا غیر تحریری دستور خود بہ خود تحریر ہو جاتا ہے۔ پوری کائنات میں کچھ بھی خود بخود وجود میں نہیں آتا۔

کچھ ظہور پذیر ہونے کے لئے سبب یا اسباب ضروری بلکہ لازمی مانے جاتے ہیں۔ سبب کے بغیر آپ انجام کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کچھ ہونے کے لئے وجہ کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ سینہ بہ سینہ صدیوں سے ہم پر مسلط دستور نسل در نسل انسان کے ردعمل کا نچوڑ ہے۔ اس موضوع پر بھی کبھی نہ کبھی ہم مل بیٹھیں گے اور بات کریں گے بلکہ بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ فی الحال مجھے نوجوانوں اور جوانوں سے بات کرنی ہے۔ جوانوں اور نوجوانوں کو میں یقین دلاتا ہوں کہ میرا ارادہ ان کے سر پر نصیحتوں کا بوجھ ڈالنا نہیں ہے۔ اسلئے نوجوان اور جوان بغیر کسی تنائو کے فقیر کی بات سن سکتے ہیں۔ یہ میری اپنی، ذاتی کارپردازی Experience کا نچوڑ ہے۔

میں بھی کبھی نوجوان اور پھر جوان ہوا کرتا تھا ۔ میں جانتا ہوں، آپ یقین نہیں کریں گے۔ آپ حیران مت ہوں، آپ بھی نوجوان اور جوان پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح ہم بھی ماں کے پیٹ سے بوڑھے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ہم سب شکوے شکایتیں لیکر اس دنیا میں آتے ہیں، ہمارے شکوے شکایتوں کو لوگ آج تک ہمارا رونا دھونا سمجھتے ہیں، بلکہ مانتے ہیں، نومولودوں کی شکایتیں اپنے مالک اپنے خالق سے ہوتی ہیں۔ اسلئے عام فہم نہیں ہوتیں، یہ باتیں فوراً صوفیوں کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ وہ زندگی بھر، مرتے دم تک اپنے خالق، اپنے مالک سے ہم کلام ہوتے رہتے ہیں۔ اپنے خالق اپنے مالک سے براہِ راست ترسیل،گفتگو کو صوفی اپنا ذاتی، اپنا شخصی اور نجی حق سمجھتے ہیں۔ صوفیوں کی یہی محبت زیادہ علم رکھنے والے عالموں کو اچھی نہیں لگتی۔ اس موضوع پر بھی ہم مل بیٹھیں گے اورکسی روز بات کرینگے۔ فی الحال مجھے اتنا کہنے کی اجازت دیجئے کہ کل کائنات کے خالق اور مالک پر آپ اپنی اجارہ داری کا اعلان نہیں کر سکتے۔ وہ عالموں کا اللّٰہ ہے، تو صوفیوں کا اللّٰہ بھی وہی ہے۔ہم اپنے خالق،اپنے مالک کو بانٹ نہیں سکتے، آپ اس ضمنی موضوع سے دست بردار ہو جائیے اور فقیر کی بات غور سے سنئے گا۔

آپ یقین کیجئے کہ میں بھی کبھی آپ کی طرح نوجوان اورجوان ہوا کرتا تھا۔ ہونہار اولاد ہونے کے ناطے میں والدین کی بلکہ والد صاحب کی باتیں غور سے سنتا تھا۔ ان کی باتوں میں نصیحتیں ہوتی تھیں۔ مشورے ہوتے تھے، ہدایتیں ہوتی تھیں، ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بیٹے زندگی کا مقصد ہے کسی کے کام آنا۔ ناداروں اور بوڑھوں کا خیال رکھنا۔ ان کی خدمت کرنا اگر سفرکے دوران بس یا ریل کے ڈبے میں بزرگ سوارہو جائیں تو آپ اُٹھ کر ان کو اپنی سیٹ بیٹھنے کیلئے دیجئے۔ پگڈنڈی پر کسی بزرگ کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھیں تو ان کو راستہ دینے کے لئے پگڈنڈی سے اُتر جانا۔ بزرگ اگر بات کر رہے ہوں تو آپ کو ان کے درمیان بولنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ کھانے کی میز پر بزرگوں کی موجودگی میں کبھی کھانا کھانے میں پہل مت کرنا۔ یاد رکھنا بیٹے، بڑے بوڑھے زمین پر اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے ہیں۔

اس نوعیت کی ہدایتیں ہر دور میں نوجوانوں اور جوانوں کو ملتی رہتی ہیں۔ جب میں اور آتش جواں تھے، تب ہمیں بھی عمر رسیدہ اور بوڑھوں سے اچھے اور بااخلاق رویہ اپنانے کی ہدایت ملتی رہتی تھی۔ تمام ہدایتیں اور اخلاقی درس ہمیں اپنے والدین سے ملتے تھے۔ تب وہ بذات خود بھی بوڑھے ہوچکے تھے۔ سہارے سے اُٹھتے اور بیٹھتے تھے، مٹھی بھر رنگ برنگی گولیاں اورکیپسول کھاتے تھے۔ اونچا سنتے تھے، روزمرہ کی اکثر باتیں بھول جاتے تھے۔ بائیں جانب دیکھیں تو لگتا تھا، جیسے دائیں جانب دیکھ رہے ہوں۔ جب بھی ہم نوجوان اور جوان ان کے ہتھے چڑھ جاتے تھے، وہ ہمیں بڑے بوڑھوں سے احترام، عزت اور اخلاق سے پیش آنے کی ہدایت کرتے تھے۔ اس سے آگے وہ ہمیں کچھ نہیں بتاتے تھے۔ مگر میں ایسا نہیں کروں گا، میں آپ کو ایسی باتیں بتائوں گا جو کسی بوڑھے نے آپ کوکبھی نہیں بتائی تھیں۔ ہمارے بزرگ بے انتہا نیک تھے۔ اندرکی باتیں بتانے سے گریزکرتے تھے۔ میں ان کا خلا پر کروں گا، میں آپ نوجوانوں کو سب باتیں بتادوں گا جو مجھ سے پہلے میری عمر کے بوڑھے آپ کو بتانے سے گریز کرتے تھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین