• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب کیا ہوگا؟

اب کیا ہورہا ہے؟

الیکشن اسی سال ہوں گے یا نہیں؟

یہ ڈالر کہاں جاکے رُکے گا؟

ان میں سے اکثر ارب پتی ہیں۔ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے عہدیدار ہیں۔ کچھ کراچی ایوان صنعت و تجارت کے بڑے لوگوں میں سے ہیں۔ اربوں روپے کی درآمد برآمد کرنے والے۔ کچھ بینکوں کے سربراہ ہیں۔ کچھ ریٹائرڈ جنرل ہیں، بریگیڈیئر،کچھ ماہر تعلیم، سابق وزیر اعظم،سابق گورنر، سابق چیف جسٹس،سابق وفاقی وزیر، صرف کراچی کے ہی نہیں بلکہ ملک کے بہترین دماغ مگر سب کے ماتھے پر شکن، آنکھوں میں بے یقینی، چہرے پر اضطراب، لہجے میں لکنت، ان میں سے کئی اپنی برادریوں کے سربراہ بھی ہیں۔ان سب کے نزدیک سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہر طرف سے مورد الزام ٹھہری ہوئی ہے۔ ایسے بحرانوں میں وہ آخری امید ہوتی تھی کہ وہ آپس میں لڑنے والوں کو ایک میز پر بٹھالیتی تھی یا خود ملک کا نظم و نسق سنبھال لیتی تھی۔ اب سوشل میڈیا نے اسے بھی متنازع بنادیاہے۔

ہم شہر قائد کی ایک گنجان مگر امیر بستی میں ناشتے پر جمع ہیں۔ اپنے زمانے کے طالب علم لیڈر، شعر و ادب کا علم رکھنے والے پاکستان کے لئے درد مند سلطان چاولہ ہر سال کی ابتدا میں ایک اجتماعی ناشتے کا اہتمام کرتے ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کی نمایاں شخصیتیں اتوار کی صبح صبح اٹھ کر یہاں پہنچتی ہیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی خاص طور پر شرکت کیا کرتے تھے۔ مختلف دہائیوں کے مقررین،مباحثوں میں ٹرافیاں اٹھانے والے، مختلف لسانی نسلی برادریوں کے سربراہ،حالات کی نبض پر انگلیاں رکھنے والے سماجی رہنما، ڈاکٹر، جراح اورسابق سرکاری افسر کشاں کشاں آتے ہیں۔ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ گلے شکوے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد اور پنڈی میں کیا ہورہا ہے؟ اپنی اپنی معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

ہر شہر میں ایسی محفلیں سجتی ہیں۔ کہیں ناشتہ،کہیں ظہرانہ اور کہیں پُر تکلف چائے۔ مہذب معاشروں میں اور ایسے ملکوں میں جہاں سسٹم بن چکے ہیں، قانون سب کے لئے یکساں ہے۔ وہاں ہم نے دیکھا ہے کہ مستقبل کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ وہاں آئندہ پندرہ بیس برس کے چیلنجوں اور سنہرے مواقع پر بات کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے کامیاب معاشی، علمی اور سماجی تجربوں کی مبارکباد دیتے ہیں۔ پاکستان میں یہ سماں صرف انتخابات کے انعقاد کے دوران ہوتا ہے۔ جب کسی تقریب میں یہ ’’بزنس ٹائیکون‘‘ یہ پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ کون آرہا ہے وزیر خزانہ۔ اب جب حکمراں طبقے انتخابات سے خوف زدہ ہوں اورالیکشن کے انعقاد کی بجائے الیکشن کے التوا کی کوششوں میں لگے ہوئے ہوں تو مستقبل کی بات کوئی نہیں کرتا۔یہاں مجھے سابق چیف جسٹس شریعت کورٹ اورممتاز افسانہ نگار جسٹس حاذق الخیری نظر آرہے ہیں۔ نئی نئی تصنیفات پیش کرنے والے جاوید جبار ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیربھٹو کے دَور پر But Prime Minister اور صدر مشرف کے ساتھ رفاقت پر A General in Particular انڈس اسپتال سے غریبوں کے مفت علاج کا کامیاب تجربہ کرنے والے ڈاکٹرعبدالباری۔ ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں تحقیقی ادارے قائم کرنے والے سردار یٰسین ملک ہیں۔ آرٹس کونسل والے اعجاز فاروقی، سابق وزیر داخلہ اور کچھ اسکول گود میں لینے والے لیفٹیننٹ جنرل(ر) معین حیدر، رکن قومی اسمبلی اوربہت درد مند قیصر شیخ کراچی چیمبر کے شوکت احمد،امجد رفیع، سینئر صنعت کار بشیر جان محمد، جن سے مل کر عبدالحمید چھاپرا یاد آجاتے ہیں۔ زاہد ملک کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنّف پنجابی سوداگران دہلی کے اقبال یوسف ہیں،ندیم ہاشمی ہیں، ضیاعباس ہیں۔ عربی زبان کی تدریس کاانتظام کرنے والے ظفر اقبال، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے والد اختر ٹیسوری ہیں۔ کارپوریٹ دنیا کے ممتاز لوگ ۔ یہ اوپن ہائوس ہے ۔ لوگ آرہے ہیں۔ جارہے ہیں۔ ایک طویل عرصے بعد گزشتہ دو تین دہائیوں کی نمایاں شخصیت محمد میاں سومرو سے ملاقات ہوتی ہے۔ سابق گورنر سندھ،سابق نگران وزیر اعظم، سابق چیئرمین سینیٹ۔ ماشاء اللہ بہت ہشاش بشاش۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات بھی ہوئے۔ بہت سے احباب ایک دوسرے کو اپنا انگوٹھا بھی دکھارہے ہیں۔ جہاں انمٹ سیاہی نقش ہے کہ وہ پہلے اپنا آئینی فریضہ انجام دے کر اس محفل میں آئے ہیں۔یہ سب با اثر افراد ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا ایک حلقۂ احباب ہے۔ ان میں سے اکثر پاکستان کے خزانے میں ٹیکس کی بھاری رقوم جمع کرواتے ہیں۔ کبھی زمانہ تھا کہ سیاسی قیادت بھی، فوجی قیادت بھی ان سے مشورہ کئے بغیر فیصلے نہیں کرتی تھیں۔ اب تو ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حالات نے واقعی پریشان کر رکھا ہے۔ دھند بہت دبیز ہوگئی ہے۔ بندرگاہ پر قیمتی خام مال لئےکنٹینر کارخانوں میں داخلے کیلئے بے تاب ہیں۔ اعلیٰ سرکاری افسروں اور تاجروں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔شہر قائد میں بڑھتی وارداتوں پر بھی اظہار تشویش ہے۔ ان میں سے تو اکثر کے ساتھ پرائیویٹ مسلح گارڈز چلتے ہیں یا پولیس کی نفری۔ اس لئے یہ سر راہ ڈکیتیوں سے محفوظ رہتے ہوں گے۔ لیکن ان کے منیجرز، دفتروں کے کارکن تو قتل ہورہے ہیں۔ شہر میں مختلف لسانی طبقوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے متحارب دھڑوں کے درمیان اتحاد سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جارہیں۔

میں تو سب سے یہی عرض کررہا ہوں کہ:

حالات سے پنجہ آزما ہو

حالات کو سازگار کر لے

اب وقت ہے اپنی مدد آپ کا۔ آپ با اثر لوگ ہیں۔ آپ میں سے بہت سے پہلے ہی فلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس دائرے کو بڑھائیے، ’’اپنی مدد آپ گروپ‘‘ بنائیں۔ جو عام پاکستانیوں کے مسائل حل کرے۔ غربت کے خاتمے کے لئے روزگار کا اہتمام کریں۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کے مطابق مختلف شعبوں میں ان سے خدمات لی جائیں۔ ملک میں نوجوانوں کی اکثریت کا فائدہ اٹھایا جائے۔ صنعتی و تجارتی کمپنیاں تحقیق پر زور دیں۔ مستقبل کے امکانات کا جائزہ لے کر لائحہ عمل اختیار کریں۔ دولت مندوں اور دانش مندوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین