• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دیوالیہ پن کی دہلیز پر کیوں کھڑا رہتا ہے؟ اس کی سیاسی وجوہات تو بے شمار ہیں، آج مگرہم سادہ اور آسان حساب کتاب کے ذریعے یہ گتھی سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری برآمدات کا تخمینہ 80ارب ڈالر ہے جب کہ ہر سال ہم 30ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتے ہیں۔ یوں 50ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا رہتا ہے چونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ 30ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر بھجواتے ہیں تو یہ خسارہ 50ارب ڈالر سے کم ہو کر 20ارب ڈالر رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال قرضوں پر سود ادا کرنا ہوتا ہے جس کیلئے ہمارے معاشی ماہرین نے Service Charges کی خوش نما اصطلاح متعارف کرائی ہے۔ یہ سب ادائیگیاں چوں کہ بالعموم غیر ملکی کرنسی اور بالخصوص ڈالر میں کرنی ہوتی ہیں اس لئے ہمیں کشکول لے کر قرضوں کی بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ ہر سال کاسہ گدائی کا حجم اس لئے بڑھتا چلا جاتا ہے کہ پہلے سے لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے درکار رقم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہم اب ایک نظر مقامی کرنسی کو درپیش صورتحال پر ڈالتے ہیں۔ رواں مالی سال آمدنی کا ہدف 7004ارب روپے رکھا گیا جب کہ اخراجات کا تخمینہ 9502ارب روپے ہے۔ یعنی عوام کی رگوں سے آخری قطرہ تک نچوڑ کر محاصلات کا ہدف حاصل کر لیا جائے تو یہاں بھی سالانہ 2500ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹیکسوں کے ذریعے جمع کئے گئے ان 7000ارب روپو ں میں سے 3950ارب روپے پہلے سے لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں خرچ ہو جائیں گے۔ یہاں بھی وہی گھن چکر ہے کہ اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے یا تو مزید قرضے لئے جائیں گے یا پھر اور نوٹ چھاپ کر افراطِ زر میں اضافہ کیا جائے گا۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد حکومت کے پاس بچتے ہیں 3000ارب روپے۔ان میں سے 1923ارب روپے دفاع پر خرچ ہو جاتے ہیں (دفاعی بجٹ + سویلین بجٹ سے ادا کی جا رہی عسکری پنشن 1523+400ارب روپے)۔ باقی بچ گئے ایک ہزار ارب روپے تو ان میں سے 550ارب روپے سویلین حکومت چلانے پر خرچ ہو جاتے ہیں یعنی یہ جو وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج بھرتی کی ہوئی ہے ان کی مراعات اور پروٹوکول وغیرہ۔ اب آپ ہی بتائیں ترقیاتی کاموں، سبسڈیز اور دیگر منصوبوں کیلئے کیا بچتا ہے؟

اچھا، اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ آپ کے پاس اگر سرمایہ ہے تو آپ کیا کریں گے؟ دو طرح کے امکانات ہیں۔ اپنی استعداد کے مطابق کوئی کاروبار کریں، کارخانہ لگائیں، کچھ اُگائیں، بنائیں اور اسے مقامی یا عالمی منڈی میں بیچ کر دولت کمائیں۔ اس میں نقصان اور سرمایہ ڈوب جانے کے امکانات بہت ہیں۔ ایک اور امکان یہ ہے کہ آپ کسی اچھی ہائوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ یا گھر خرید لیں، کچھ عرصہ بعد معقول منافع پر بیچ دیں۔ لہٰذا زیادہ تر سرمایہ کار فیکٹری یا کوئی پیداواری یونٹ لگانے کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے رقبے، پلاٹ اور گھر وں کی خرید و فروخت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

دوسرا حل یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد کم کردینے سے، کفایت شعاری اپنانے سے، سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر کم استعمال کرنے سے بہت بڑا فرق نہیں پڑنے والا لیکن اس طرح کے علامتی اقدامات سے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ہر ایک کو قربانی دینا ہو گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عام آدمی کی گردن پر تو معاشی بدحالی کی قربان گاہ میں چھری پھیر دی جائے لیکن اشرافیہ کا طرز زندگی تبدیل نہ ہو۔ آئوٹ آف باکس حل تلاش کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر دیوالیہ پن کے شکار سری لنکا نے فیصلہ کیا ہے کہ اخراجات کم کرنے کے لئے فوج کی تعداد کم کردی جائے۔پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی صورتحال کے پیش نظر دفاع پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اصلاحات کے ذریعے غیر دفاعی اخراجات میں کمی کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں ’’اگنی پتھ‘‘ اسکیم متعارف کروائی گئی ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر ’’اگنی ویرز‘‘ کو چار سال کے لئے بھرتی کیا جائے گا او رپھر ان میں سے 25فیصد بہترین سپاہیوں کو مستقل کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ غیر دفاعی اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔  اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی کا عہدہ تخلیق کرکے ایک الگ ڈائریکٹوریٹ بنایا گیا تھا لیکن اختیارات نہ ہونے کے باعث یہ رسمی عہدہ پاکستان جیسے غریب ملک کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل سروہی تجویز دے چکے ہیں کہ اسے ختم کر دیا جائے۔ مختصر کالم میں تمام تفصیلات تحریر نہیں کی جا سکتیں لیکن میں نے اسے ’’فوڈ فار تھاٹ‘‘ کے طو ر پر پیش کیا ہے۔

تازہ ترین