• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے ملک کے تما م صاحبان علم و دانش کی خدمت میں درویش کا یہ سوال ہے کہ ہماری سوسائٹی میں اس قدر منافقت کیوں ہے؟قول و فعل کا اس قدر تضاد کیوں ہے؟ لوگ نجی زندگی میں کچھ اور ہوتے ہیں، پبلک لائف میں بالکل اس کے الٹ کیو ں ہیں؟ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، کم تولتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی ایمانداری اور دیانتداری کی لچھے دار باتیں کرتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے حالانکہ وہ ڈائریکٹ اپنا اصل کام یا ایشو بیان کرسکتے ہیں مگرنجانے کیوں ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنی پارسائی کا رعب دوسرے پر بٹھائیں۔یہ رویہ ہمارے گلی محلوں تک ہی نہیں، سیاست کے ایوانوں میں بھی ہے۔ہمارا ایک سیاسی لیڈر ساری خرافات کے باوصف عوام میں کھڑا مذہبی حوالوں سے اتنے اعتماد و ایقان کے ساتھ بھاشن دے رہا ہوگا جیسے مذہب کی نہ جانے اس نے کتنی ڈیپ سٹڈی کر رکھی ہے اور خدا کا کتنا مقرب ہے، مطالعہ چاہے تیسری جماعت کے طالبعلم جتنا ہو ،اگر وہ اپنے اس چورن کو بیچنے میں تھوڑی کمی کر جائے تو ساتھ کھڑا کوئی خوشامدی نمبر ٹانگتے ہوئے کہے گا ’’خان صاب اپنی باتوں کو ذرا اسلامی ٹچ دیں‘‘۔ آخر یہ کیا وتیرہ ہے؟

منافقت اور بے ایمانی کی انتہا یہ ہے کہ جو دودھ میں پانی ملا کر اپنی کمائی بڑھا رہا ہوتا ہے، باتیں اس کی زبان پر بھی یہی ہونگی کہ ملک میں کرپشن اور بے ایمانی اتنی زیادہ کیوں ہے؟یہود و ہنود بہت برے ہیں ، ڈاکٹر رشید جالندھری مرحوم کہا کرتے تھے کہ ’’جب اللہ دتہ سے پوچھتا ہوں کہ تو ڈیوٹی پر بروقت کیوں نہیں آتا تو جواب دیتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب

جب تک اس ملک میں اسلامی نظام نہیں آئے گا اللہ دتہ اس کافرانہ نظام کے تحت ایسے ہی کام کرے گا‘‘۔یہاں کتنے نام نہاد دانشور اور اسکالرز ہیں جو آف دی ریکارڈ ایسی ایسی باتیں کریں گے، ایسے ایسے حقائق اور سچائیاں کھولیں گے کہ بندہ کہے گا کتنے کھرے لوگ ہیں مگر جونہی ان کو کیمرے کے سامنے ریکارڈنگ کیلئے بٹھائیں گے تو گھسی پٹی ،روایتی باتو ں کی جگالی شروع کردیں گے۔ حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ دانشورانِ قوم نے اسی نوع کا وتیرہ اختیار کیا ہواہے۔

ادھر پاکستا ن میں ایک شخص ہر غیر شرعی کام کرتا ہے، سیتا وائیٹ سے شروع ہوجائیں اور مشرق و مغرب کی دو شیزاؤں کے نام گنتے چلے جائیں لیکن اس کی کوئی بھی تقریر سنیں، لگے گا کہ شاید کوئی ولی اللہ ہے لیکن دوسری طرف رخ پھیرتے ہی بولے گا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے پلے بوائے کی لائف گزارتا رہاہوں۔یہ بیچارہ کس کھیت کی مولی ہے، یہاں منافقت کے ایسے سوداگر بھی تھے جنہیں بھرے جلسوں میں یہ تسلیم کرتے ہوئے عار نہ تھی کہ ہاں میں تھوڑی سی پیتا ہوں جبکہ میرے مخالفین اٹھتے بیٹھتے حلوہ کھاتے ہیں۔

بعض الفاظ تو بنے ہی نچلے اور غریب طبقے کیلئے ہوتے ہیں لیکن یاد رہے کہ بڑوں کی پھیلائی ہوئی منافرت ومخالفت نچلے طبقے تک کیوں نہیں جائے گی؟ بڑے اگربُرے یا ناپاک سینڈویچ پسند کرنے اور کھانے کے باوجود یہ کہیں گے کہ اس کا زبانی اظہار نہ کرنا، کہیں ہم سیٹ ہار نہ جائیں تو یہ چیز دودھ بیچنے اور جیب کاٹنے والے تک میں کیوں نہیں پائی جائے گی؟ یہ سب وہ باتیں ہیں جن کی برکت سے ہماری روایتی سوسائٹی آج اول و آخر منافقت کے کیچڑ سے لتھڑی پڑی ہے لہٰذا اے دانشورانِ قوم خود بھی اس دلدل سے نکلو اور اپنی پیاری قوم کو بھی اس لعنت سے چھٹکارا دلانے کا کوئی اہتمام کرو۔

تازہ ترین