• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہفتہ کے روز سندھ اسمبلی میں 14ارب روپے کے خسارے کا صوبائی بجٹ پیش کر دیا گیا۔ اس بجٹ کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ اس میں صوبہ کے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالا گیا اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبہ میں آئندہ مالی سال 2016-17ءکے دوران 50ہزار نئی نوکریاں دی جائیں گی ان میں 20ہزار پولیس، دس ہزار محکمہ تعلیم، ساڑھے تین ہزار محکمہ صحت اور باقی دیگر محکموں میں نوکریاں دی جائیں گی۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کیساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کے دیگر الائونسز میں بھی اضافہ کیا گیا۔ جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف کی صورت میں دس فیصد اضافہ اور مزدور کی تنخواہ کم از کم چودہ ہزار روپے ماہانہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں سالانہ میزانیہ پیش کرتے ہوئے اسے ’’عوام دوست‘‘ بجٹ قرار دیا۔ جبکہ اسمبلی میں اپوزیشن نے اسے الفاظ کی جادو گری قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ جبکہ سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد خواجہ اظہار حسن نے بجٹ تقریر کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے بجٹ پر مایوسی کا اظہار کیا اور بجٹ میں کراچی اور حیدر آباد کو نظر انداز کرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ان دو بڑے شہروں کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے جو فنڈز مختص کئے گئے ہیں وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں۔ اسمبلی کا اجلاس سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغاسراج الحق کی صدارت میں منعقد ہوا جب اسپیکر نے وزیر خزانہ کو بجٹ پیش کرنے کی دعوت دی تو ایم کیو ایم کے ایک رکن نے کراچی میں پانی کے مسئلہ پر بات کرنی چاہئے اور سارا ہائوس نو نو، شیم شیم کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اسپیکر نے اپوزیشن کے احتجاج پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایمپریس مارکیٹ نہیں سندھ اسمبلی ہے۔ لیکن اپوزیشن کے ارکان نے احتجاجی نعرے بازی جاری رکھی اور اسمبلی مچھلی مارکیٹ کا سماں پیش کرتی رہی ایک موقع پر اپوزیشن ارکان نے وزیر خزانہ کے اعدادوشمار کو جھوٹ قرار دیا تو سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جھوٹے کا منہ کالا صوبہ سندھ کا سالانہ بجٹ 8کھرب 69ارب اور 12کروڑ روپے کا ہے۔ کل آمدن کا تخمینہ 8کھرب 54ارب 50کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ جبکہ اخراجات کا تخمینہ بھی 8کھرب 69ارب دس کروڑ روپے ہے۔ اس طرح 14ارب روپے کا خسارہ بنایا گیا ہے۔ اس بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں گزشتہ مالی سال کے نسبت فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے اور تعلیم، صحت، امن و امان اور مقامی حکومتوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ تعلیم کیلئے ایک کھرب 60ارب70کروڑ روپے۔ امن و امان جس میں پولیس، رینجرز، جیل اور دوسری سکیورٹی ایجنسیاں شامل ہیں کیلئے 82ارب 30کروڑ روپے اور صحت کے شعبے کیلئے 65ارب 90کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ کراچی جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے اسکے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 50ارب 30کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کراچی کے ترقیاتی بجٹ میں انفراسٹریکچر پروجیکٹ کیلئے 10ارب روپے بھی شامل ہیں۔ بی آر ٹی بلو لائن راہداری 16کلو میٹر طویل ہے جس پر ہزاروں مسافر روز سفر کر سکیں گے اس منصوبے کی لاگت 16ملین روپے ہے اسکا روٹ دائود چونگی سے شاہراہ قائد تک ہے۔ سالانہ بجٹ میں اس کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔ سالانہ بجٹ میں کراچی کیلئے ریڈ لائن منصوبے کی تعمیر کیلئے 12ارب 75کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اس منصوبے کی رقم عوامی جمہوریہ چین کی کمپنی فراہم کرے گی حکومت سندھ اپنے حصے کے 2ارب 25کروڑ روپے مہیا کریگی۔ اگرچہ سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا ہے تاہم اس بجٹ میں اشیائے ضرورت خصوصاً آٹا، گھی، دال اور چینی کی قیمتوں میں کمی اور گرانی پر قابو پانے کیلئے کوئی تجویز نہیں دی گئی اور نہ ہی کراچی کے سب سے بڑے مسئلہ پانی کو حل کرنے اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کیلئے کسی اقدام کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگرچہ سندھ حکومت کا یہ اعزاز ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ نواں بجٹ ہے جو 2008ءسے مسلسل پیش کیا جا رہا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ یہ بجٹ سندھ کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں کے مسائل کو کم کرنے کا موجب بنے گا۔
تازہ ترین