• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کسی سے بھی پوچھ لیں کہ’’ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟‘‘ تو’’ معاشی بحران‘‘ ہی جواب ملے گا۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ امیر، غریب ، حکم ران، سیاست دان، اہلِ دانش اور عام آدمی کم ازکم سب ایک بات پر تو متفّق ہیں کہ ہم بدترین معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔ لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں، تو ہماری توجّہ معیشت کی بہتری کے علاوہ باقی تمام معاملات پر مرکوز ہے۔اِسی لیے ہم یہ مسئلہ حل کرنے میں بُری طرح ناکام ہیں۔سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے، احتجاجی سیاست بھی خُوب ہو رہی ہے، اسمبلیاں توڑی جا رہی ہیں،مگر مُلکی معیشت پر کم ہی دھیان ہے، حالاں کہ معاشی صُورتِ حال سے متعلق جو اعداد وشمار سامنے آ رہے ہیں، وہ نہ صرف چونکا دینے والے، بلکہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ 

یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت اِس ضمن میں کچھ نہیں کر رہی، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اُس کا فوکس معیشت ہی ہے۔خواہ اِس بات سے کوئی کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کرے،مگر حقیقت یہی ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم کو بگڑتی اقتصادی صُورتِ حال کا پوری طرح ادراک ہے اور یہ بھی کہ اس وجہ سے حکومتی اتحاد مقبولیت بھی کھوتا جار ہا ہے،خاص طور پر منہگائی نے عوام کو بُری طرح پیس ڈالا ہے۔ڈالر مسلسل اوپر جا رہا ہے اور روپے کی قدر کم ہو رہی ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے درآمدات پر منفی اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ ساحل پر سامان سے لدے سیکڑوں کنٹینر کھڑے ہیں، لیکن اُنھیں کلیئر کروانے کے لیے ڈالرز موجود نہیں۔گو کہ حکومت نے معاشی حالات میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں اور اُسے کام یابی بھی ہوئی، لیکن ابھی تک عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا، جس کی وجہ سے حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے اور گورنینس پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔جنیوا میں سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے بلوائی گئی ڈونرز کانفرنس میں توقّع سے زیادہ مالی امداد کے اعلانات ہوئے۔ساڑھے آٹھ ارب ڈالرز کا ہدف رکھا گیا تھا اور دنیا کی جانب سے ساڑھے نو ارب ڈالرز کے وعدے کیے گئے۔

ان میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامک بینک جیسے معتبر عالمی مالیاتی ادارے اور امریکا، فرانس، جرمنی اور سعودی عرب جیسے مستحکم ممالک شامل ہیں۔ظاہر ہے، اِس سے ثابت ہوا کہ دنیا اور مالیاتی اداروں کو اعتماد ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر کوئی بڑامعاشی دھچکا نہیں لگنے والا۔یہ تو حقیقت ہے کہ مُلک انتہائی سُست رفتاری سے چل رہا ہے، لیکن اس کے ڈوبنے کے خدشات بے بنیاد ہیں۔ شہباز شریف، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت سے قرضے رول اوور کرنے میں کام یاب رہے، بلکہ ان ممالک سے مزید دو ارب ڈالرز بھی لے لیے۔ مایوسی کی فضا میں یہ سب مثبت اشارے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر دنیا کی طرف سے اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے، تو اندرونِ مُلک صُورتِ حال اس کے یک سَر اُلٹ ہے۔عمران خان اور اُن کی جماعت کا پسندیدہ مشغلہ عوام کو یہی باور کروانا رہ گیا ہے کہ’’بس مُلک دیوالیہ ہونے کو ہے۔‘‘دوسری جانب، وہ دوست ممالک کو بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت کو قرضے اور امداد نہ دی جائے، کیوں کہ مُلک عدم استحکام کا شکار ہے۔ شاید اُنھیں اپنے اِس عمل کے بھیانک نتائج کا احساس ہی نہیں ۔

معاشی زبوں حالی کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ آئی ایم ایف کے معاملے میں بھی پی ٹی آئی نے یہی کوشش کی کہ یہ پروگرام کسی طرح معطّل ہوجائے، یہ سوچے بغیر کہ اِس سے مُلک کو کس قدر نقصان ہو سکتا ہے۔مفتاح اسماعیل کے دَور میں بھی اُنہوں نے آئی ایم ایف کو پیغامات بھیجے اور اب، جب آئی ایم ایف ریویو قریب ہے،تو پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑ کر مُلک کو غیر مستحکم دِکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں مُلکی معیشت سے زیادہ اپنی اَنا کی تسکین اور ضد عزیز ہے، حالاں کہ وہ خود اِسی قسم کے مالیاتی حالات اپنے دَور میں بھگت چُکے ہیں۔

یہ اندازِ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کی ناکامی نہیں، بلکہ مُلک اور ریاست کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔اگر ضرورت ہو،تو انتخابات کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں،لیکن اِس امر پر اتفاق سب سے اہم ہے کہ قومی معاشی پالیسی کا تسلسل برقرار رہے گا اور اس پر کوئی کھیل تماشا نہیں ہوگا۔ ہر بار صفر سے شروع کرنا، عوام اور سیاست، دونوں کی ناکامی ہے، عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے ایسی سیاست کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مُلک کو کسی انقلاب یا آزادی کی ضرورت نہیں، اِسے اقتصادی ترقّی کی راہ پر گام زن ہونے کی ضرورت ہے۔

اگر دنیا کی تاریخ سامنے ہو، تو اِتنا تو معلوم ہو ہی جائے گا کہ عوام کی خوش حالی اور معیشت کا استحکام تمام معاملات پر فوقیت رکھتے ہیں۔ اکیس ویں صدی میں بھی عوام کو یہ بات سمجھ نہ آئی، تو پھر مُلک و قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔کسی دوسرے کو الزام دینے کی کیا ضرورت، جب ہم خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہوں۔جمہوریت میں اعتماد اور عدم اعتماد کی پوری گنجائش موجود ہے، جس کا حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں مظاہرہ ہوا۔پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ لیا اور پھر دوسرے ہی دن اسمبلی تحلیل کردی۔ وہ اور پی ٹی آئی جو کام نہیں کرسکے، وہ اقتصادی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا تھا۔وہ یہی دِکھا جاتے کہ اگر مرکز درست نہیں چل رہا، تو اُنہوں نے اپنے زیرِ اقتدار صوبہ تو خوش حال بنا دیا۔ 

کم ازکم ورکنگ ریلیشن شپ تو قائم رکھتے۔یہ کیسی سیاست ہے، جس میں اختلاف، دشمنی بن جائے۔ اِس اقدام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مُلک کے باسٹھ فی صد آبادی والے صوبے میں آٹھ مہینے سے افراتفری اور اکھاڑ پچھاڑ کی سی کیفیت ہے۔یوں لگتا ہے، اس صوبے میں لوگ نہیں بستے، بس چند سیاسی جماعتیں ہیں، جنہوں نے ایک سرکس لگایا ہوا ہے۔دُکھ کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے عوام جس طرح اس کھیل میں بے بس نظر آئے، اُس نے مُلک بھر میں مایوسی کی فضا پیدا کی۔ کیا اِسی کا نام جمہوریت ہے؟ ہم یہ کیسے تجربات کیے چلے جارہے ہیں اور اس پر سیاست دان شرمندہ ہیں، نہ عوام نادم۔

میڈیا بھی اِس کھیل میں کبھی ایک طرف لڑھک جاتا ہے، تو کبھی دوسری طرف۔ہر بات جائز ہے، اگر وہ میرا پسندیدہ کھلاڑی ہے۔جب آئی ایم ایف جیسے معاملات آتے ہیں، تو بہت سے ماہرین حکومت پر مشکل فیصلوں میں دیر کا الزام لگا دیتے ہیں، لیکن جب مشکل فیصلے کیے جاتے ہیں اور اُن کے منہگائی کی صُورت اثرات سامنے آتے ہیں، تو وہی ماہرین حکومت پر برس پڑتے ہیں۔پھر ہمارے لائف اسٹائل کے بھی کیا ہی کہنے۔ امیر ممالک کے لوگ بھی ہمیں حیرت سے دیکھتے ہیں۔شادیوں پر ڈالرز کی بارش، جب کہ بینکس ڈالر سے خالی۔ایک سے بڑھ کر ایک گاڑی کا شوق اور منہگے پیٹرول کے قصّے بھی۔

جنوب مشرقی ایشیا ہمارے ہی جیسے مُمالک اور انسانوں پر مشتمل خطّہ ہے۔کچھ اقتصادی ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ جنوبی کوریا نے ہمارا ماڈل اپنا کر ترقّی کی، ہوسکتا ہے کہ یہ بات درست ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ کوریا کس بلندی پر ہے اور ہم کیسی گہرائیوں میں پڑے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں دو طرح کے ممالک ہیں، لیکن اُن میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ وہ سب بدترین اقتصادی حالت سے نکل کر ترقّی یافتہ ممالک میں شامل ہوچُکے ہیں۔اُن میں اِس وقت دنیا کی دو بڑی طاقتیں، جاپان اور چین بھی شامل ہیں، جب کہ چھوٹے مُمالک میں جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور، ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ ہیں، جنہیں’’ ایشین ٹائیگرز‘‘ کہا جاتا ہے۔

اُنہوں نے نہ صرف ترقّی کی بلکہ یورپ کو بھی،جو کبھی اُن کا آقا تھا، پیچھے چھوڑ دیا۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اُن میں سے کسی مُلک نے اپنی کوتاہیوں پر یہ نہیں کہا کہ اُن کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ انھیں دنیا سے دشمنی کا بھی شکوہ نہیں۔اُن کے بھی تنازعات ہیں، لیکن اُنہیں معاملات مینیج کرنا آتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ اُنہوں نے ترقّی کی سمت متعیّن کی اور پھر اُس سر دھڑ کی بازی لگا دی۔اُن میں سے زیادہ تر ممالک کو وہ جغرافیائی سبقت بھی حاصل نہیں، جو ہمیں ہے، یعنی ایک جڑا ہوا زمینی خطّہ۔ جنوب مشرقی ایشیا کے زیادہ تر ممالک چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ہیں۔

پھر اُن کے پاس غیرمعمولی قدرتی وسائل بھی نہیں۔ جاپان اور چین کو چھوڑ کر باقی ممالک کی آبادی بھی بہت کم ہے۔جیسے سنگاپور صرف 55 لاکھ افراد کا مُلک ہے۔آخر وہ پس ماندگی سے اُٹھ کر ترقّی کی دوڑ میں آگے کیسے بڑھ گئے؟اِس جادو کا نام ہے، جدید ٹیکنالوجی۔ جاپان اسے بروئے کار لایا اور راکھ کے ڈھیر سے کندن بن گیا۔ ایسی ترقّی کی کہ امریکا بھی اُسے اپنا حلیف اور ساتھی کہنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ خطّے میں اُس کی تمام پالیسیز میں جاپان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔شاید یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ جاپان، امریکا کے ایٹمی حملے میں کس طرح تباہ ہوا تھا۔فوجی شکست، معیشت ختم، مایوس قوم اور امریکا کا قبضہ۔ لیکن جاپانیوں نے ثابت کردیا کہ عظیم اقوام کس طرح گر کر اُٹھتی ہیں۔ 

جاپانیوں نے محنت کی وہ مثالیں قائم کیں کہ لفظ’’ ورک ہالک‘‘ یعنی’’ کام کے جنونی‘‘ ایجاد ہوکر اُن پر چسپاں ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جاپانیوں کو کام کرنے کا کچھ ایسا جنون ہے کہ حکومت اُنہیں زبردستی چھٹّی پر بھیجتی ہے۔جنگ کے بعد جاپان کے اہلِ سیاست اور اہلِ دانش نے ایک غیرمعمولی فیصلہ کیا کہ وہ اب فوج رکھیں گے اور نہ ہی کسی جنگ میں شرکت کریں گے۔ اُن کی تمام تر توجّہ اقتصادی ترقّی پر ہوگی۔ یہ منصوبہ بیانات یا دستاویز تک محدود نہیں تھا، بلکہ اُنہوں پوری قوم کو اِس اقتصادی انقلاب کے لیے تیار کیا۔ جمہوری طرزِ حکومت اپنایا، لیکن یہ طے کرلیا کہ اقتدار میں خواہ کوئی بھی آئے، قومی ترقّی کی راہ کھوٹی نہیں کی جائے گی۔

اِس پالیسی پر سیاسی جماعتیں اور خود جاپان کے عوام نے پہرہ دیا۔اُنہوں نے جدید ٹیکنالوجی کو اپنی ترقّی کا بنیادی ٹُول بنایا۔یوں 15 سال میں جاپان دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوّت بن چُکا تھا۔ خطّے میں چین سمیت جتنے بھی ترقّی یافتہ ممالک ہیں، سب نے جاپانی ماڈل کی تقلید کی۔ جاپانیوں نے دنیا کو جو سب سے بڑی خُوبی دی، وہ تجارت وسیاست کے ساتھ انکساری کو جوڑنا ہے۔ جاپانیوں سے ملیں، تو لگتا ہی نہیں کہ یہ ایک زمانے کی بڑی فوجی قوّت، نو آبادیاتی طاقت اور آج کی تیسری بڑی معیشت کے باسی ہیں۔1979 میں چینی لیڈر، ژیائوپنگ نے اپنی قوم کو یہ رہنما اصول دیا کہ سب سے پہلے معاشی ترقّی، باقی سب بعد میں۔اِس پالیسی کے تحت چینی قوم نے دشمنوں کو دوست بنایا، ٹیکنالوجی کو اوّلیت دی اور ترقّی کی جنگ جیت لی۔

جنوبی کوریا، سنگاپور، تائیوان اور ہانگ کانگ جنوب مشرقی ایشیا کی وہ ترقّی یافتہ معیشتیں ہیں، جنہوں نے کم وسائل اور مختصر آبادی کے باوجود دنیا کو نئی راہیں دِکھائیں۔ یہ مُمالک دوسری عالمی جنگ میں نو آبادی رہے۔کوریا کو طویل جنگ لڑنی پڑی اور دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔جنوبی اور شمالی کوریا۔ان چاروں مُمالک نے 1960 ء سے 1990ء کے دوران تیز رفتار صنعتی ترقّی کے ذریعے خود کو عام ممالک کی صف سے نکال کر ترقّی یافتہ اور خوش حال مُمالک کی فہرست میں شامل کر لیا۔

اِس دَوران اُنہوں نے مسلسل سات فی صد سالانہ کی شرح سے ترقّی کا ریکارڈ قائم کیا۔ایشین ٹائیگرز بننے والے ان ممالک نے منفرد حکمتِ عملی اپنائی اور وہ اُن میدانوں میں معرکے سر کرتے گئے، جن میں معاشی مقابلہ تو کرنا پڑا، لیکن ریٹرن بہت زیادہ تھا۔ہانگ کانگ اور سنگاپور جیسے نسبتاً چھوٹے مُمالک عالمی مالیاتی مراکز میں تبدیل ہوگئے۔ایچ ایس بی سی بینک اس کی ایک مثال ہے۔یہ دونوں ممالک دراصل جزیرے ہیں اور بحرِ ہند کی اہم ترین سمندری گزر گاہ پر واقع ہیں۔

ان کی بندرگاہیں دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں شامل ہیں۔نیز، اُنہوں نے ایسے ہوائی اڈّے بھی تعمیر کیے، جو دنیا کے مصروف ترین ہوائی مراکز میں شامل ہوگئے۔جنوبی کوریا اور تائیوان نے صنعتی شعبے، خاص طور پر الیکٹرانکس میں زبردست ترقّی کی ۔اُن کا مال نہ صرف سستا تھا، بلکہ پائے دار اور جاذبِ نظر بھی تھا۔سام سنگ اور ایل جی جیسے عالمی معیار کے ادارے انہی مُمالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم نے سام سنگ ادارہ دیکھا ہے،جو ایک پورا شہر ہے۔اُنہوں نے جاپان جیسے ترقّی یافتہ مُلک کا مقابلہ کیا اور اپنی مارکیٹ پیدا کی۔

اِسی قسم کے ملٹی نیشنل ادارے ترقّی پزیر دنیا کے لیے رول ماڈل بنے۔ایشین ٹائیگرز نے بزنس میں نجی شعبے کو فوقیت دی اور حکومتی سطح پر اُنھیں ہر قسم کی معاونت مہیّا کی گئی۔ گویا اُن کی پالیسی آزاد تجارت پر مبنی تھی، جس کا زیادہ انحصار برآمدات پر تھا۔ٹیکسز کم رکھے گئے اور انفرا اسٹرکچر فراہم کیا گیا۔ سیاست دانوں نے بزنس ٹائیکونز کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی، بلکہ اُنہیں قومی معاشی پالیسی بنانے میں شریک کیا۔

اُنہیں معلوم ہے کہ کہ اگر مُلکی تاجر ،بین الاقوامی تاجر نہیں بنے گا، تو زرِ مبادلہ کہاں سے آئے گا۔لیکن اِن کاموں کے لیے ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے، جو قومی سوچ رکھتے ہوں۔ اقتصادی ویژن ہو اورجنھیں عالمی اقتصادی معاملات سے پوری آگاہی ہو۔ جیسے اِن ایشین ٹائیگرز کے رہنما تھے یا ہیں۔ان میں شاید ہی کوئی مُلک ایسا ہو، جس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ایک سو بلین ڈالرز سے کم ہوں۔ ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، ویت نام اور پھر بنگلا دیش اور بھارت بھی اِسی دوڑ میں شامل ہوگئے اور آج جنوب مشرقی ایشیا دنیا کا سب سے ترقّی یافتہ خطّہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے لیے یہی ممالک معاشی ترقّی کے ماڈل ہیں۔ ہمیں کسی نئی پالیسی کی ضرورت نہیں، صرف معاشی ترقّی کا عزم اور اسے اپنی قومی پالیسی میں اوّلیت دینی ہے۔ عوام کو بھی معاشی سوچ دینی ہوگی تاکہ وہ ترقّی اور معیارِ زندگی کی اہمیت سمجھ سکیں۔ جاپان اور چین کے تنازعات کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں، لیکن اُنہوں نے تصادم کی راہ نہیں اپنائی اور اُن میں بات چیت جاری رہتی ہے۔ ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان کی اقتصادی مضبوطی ہی میں ہماری بقا ہے۔ 

دشمنیاں اور لڑائیاں بعد میں کرلیں گے، پہلے پائوں پر کھڑے ہوجائیں، دو چار قدم آگے چل لیں، اُس کے بعد کچھ اور سوچ سکتے ہیں۔ ہمیں ساری دنیا کا غم پالنے کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے اور پریشانیاں دُور کرنے کے لیے جدوجہد بھی۔ہمیں ایسے رہنما چاہئیں، جو قومی سوچ کے حامل ہوں۔ اختلافات ضرور رکھیں، لیکن جب ضرورت پڑے، تو اپنے مُلک اور عوام کے لیے ایک ہوجائیں۔

سنڈے میگزین سے مزید