• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا سب سے بڑا المیہ مستقبل پر سرمایہ کاری نہ کرنا ہے

بات چیت: رؤف ظفر، لاہور

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ایک ماہر سرجن ہیں ،جب کہ موٹیویشنل اسپیکر کے طور پر بھی معروف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق بہاول پور سے ہے، 1985ء میں نشتر میڈیکل کالج، ملتان سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد1990ء میں کالج آف فزیشنز آف سرجنز پاکستان سے ایف سی پی ایس اور بعد ازاں، رائل کالج آف سرجنز، گلاسگو سے ایف آر سی ایس کی اسناد حاصل کیں۔ لیپرو اسکوپک اور اینڈو کرائن سرجری میں مہارت پر اُنہیں دنیا کے بڑے طبّی اداروں کی طرف سے متعدّد ایوارڈز مل چُکے ہیں۔ 

اُن کا درس و تدریس کا تجربہ35 برسوں پر محیط ہے، تاہم اُن کے بقول، اُن کی پہلی محبّت اُردو شاعری ہے۔ عوام میں طبّی مسائل، علاج سے آگاہی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں رہنمائی کے لیے 2011ء میں ایک یوٹیوب چینل شروع کیا، جس کے سبسکرائبرز کی تعداد آج 10 لاکھ اور ویڈیوز کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہو چُکی ہے۔اس چینل کو اب تک تقریباً 7 کروڑ افراد دیکھ چُکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خصوصی نشست میں اُن سے مختلف موضوعات پرتفصیلی بات چیت ہوئی،جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

س: ڈاکٹر صاحب اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتایئے؟

ج: مَیں29 نومبر 1961ء کو بہاول نگر کی تحصیل، ہارون آباد میں پیدا ہوا۔ میرے والد اُس وقت لاہور میں ملازمت کرتے تھے، لیکن خاندانی روایات کے مطابق چوں کہ پہلا بچّہ نانا کے گھر تولّد ہوتا ہے اور میرے نانا اُس وقت سمن آباد میں رہتے تھے، تو میری پیدائش وہیں ہوئی۔ پھر میرا بچپن ملتان میں گزرا کہ والد صاحب اُس وقت ملتان میں ملازمت کر رہے تھے۔ تیسری جماعت سے ایف اے تک اسلام آباد میں رہا کیوں کہ والد کا تبادلہ اسلام آباد ہوگیا تھا۔یوں سرکاری ملازمت کی وجہ سے جہاں جہاں اُنھیں جانا پڑتا، ہم بھی ساتھ ہی جاتے۔ 

مَیں بڑا خوش قسمت ہوں کہ اُس زمانے میں سرکاری اسکولز کا ماحول بہت ہی بھرپور اور ENRICHED تھا۔ ہمارے اساتذہ میں ایسے لوگ شامل تھے، جن کی مُلک بَھر میں ایک خاص شناخت تھی۔ ہمارے ایک ہیڈ ماسٹر تھے، جی ایم شاہ، جو ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن میں رہے، وہ بہت معروف استاد اور ماہرِ تعلیم تھے۔ اِسی طرح ظہورالحق ظہور فارسی کے شاعر تھے اور اُنھیں مختلف تقاریب کے لیے ایران تک بُلایا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی کمال کی تھیں۔ 

ڈیبیٹس کا معیار بہت ہی اعلیٰ تھا۔ مشاعرے ہوا کرتے، تنقید کے موضوع پر گفتگو ہوتی اور مَیں اس ضمن میں بہت ہی خوش قسمت ہوں کہ اُس علمی ماحول اور اپنے ساتھیوں کی وجہ سے مجھے ایسے مواقع نصیب ہوئے، جن کی وجہ سے بہت شروع ہی میں میرا کتابوں اور شعر و ادب سے تعلق استوار ہوگیا۔ میٹرک میں اپنے اسکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور کالج میں بھی میرا رول نمبر ایک تھا۔ ایف ایس سی کے بعد نشتر میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا اور وہیں سے 1985ء میں ایم بی بی ایس کیا۔

پھر ایف سی پی ایس کا امتحان پاس کیا، جب اسپیشلائزیشن کیا تو اُس وقت میری عُمر تقریباً 29 برس تھی۔ بعدازاں، انگلینڈ سے ایف آر سی ایس کیا۔ میرے پاس امریکن کالج آف سرجنز کی بھی فیلو شپ ہے۔ ایک کانفرنس میں بھارت گیا، تو اُنہوں نے مجھے لیپرو اسکوپک سرجری کی اعزازی فیلو شپ دی۔1994 ء تک نشتر میڈیکل کالج، ملتان میں رہا، پھر بہاول پور آگیا اور پھر1998 ء تک وہیں رہا۔ 

کچھ عرصہ اسلام آباد میں بھی خدمات انجام دیتا رہا۔ 2002ء میں بہاول پور واپس آگیا اور پھر ریٹائرمنٹ تک وہیں قائدِ اعظم میڈیکل کالج میں خدمات انجام دیتا رہا۔ پہلے اسسٹنٹ، پھر ایسوسی ایٹ اور پھر پروفیسر ہوا، بعدازاں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور ساتھ میں ڈائریکٹر ڈیپارٹمنٹ آف میڈیکل ایجوکیشن مقرّر ہوا اور آخر میں بنیاد سے اِس ادارے کے سربراہ، یعنی پرنسپل قائدِ اعظم میڈیکل کالج کے طور پر ریٹائر ہوا۔ اِس دوران مجھے ایک فیلو شپ کے لیے کالج آف فزیشن سرجنز کی اسکالر شپ پر آسٹریلیا جانے کا بھی موقع ملا، جہاں جگر اور لیپرو اسکوپک کی سرجری کی فیلو شپ مکمل کی۔

س: آپ نے طب کے شعبے میں ایک بھرپور زندگی گزاری، موٹیویشنل اسپیکنگ کی طرف کیسے آنا ہوا؟

ج: بہت دیانت داری سے عرض کروں کہ مَیں نے کبھی خود کو موٹیویشنل اسپیکر کہا اور نہ ہی اسے تسلیم کیا، کیوں کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید تقریر کرنا ایک پروفیشن ہے۔ ہمیشہ سے استاد رہا اور مَیں درحقیقت پڑھانے کے عمل کا ایک شاگرد ہوں، یعنی اسٹوڈنٹ آف ٹیچنگ۔ سرجری اور لیپرو اسکوپک سرجری تو پہلے پڑھاتا ہی تھا اور دیگر اداروں میں بھی مجھے مدعو کیا جاتا تھا، پھر جب ماسٹرز اِن میڈیکل ایجوکیشن کیا، تو اس فیکلٹی میں چلا گیا، جہاں ٹیچرز بننے والے ڈاکٹرز اور پروفیسرز کے لیے سرٹیفیکیٹس کورسز اور ماسٹرز پروگرام کا اہتمام ہوتا ہے۔ 

میرے ذمّے کاگنیٹو سائیکالوجی پڑھانا تھا، جس میں سافٹ اِسکل ڈیویلپمنٹ کے مضامین بھی تھے۔ اس فیکلٹی میں پڑھانے کے لیے مجھے پاکستان بَھر کی یونی ورسٹیز میں مدعو کیا جاتا۔یہ جو اچانک تبدیلی آئی کہ آپ نے مجھے اسکرین پر دیکھنا شروع کیا، تو ایسا بالکل اتفاقیہ ہوگیا۔ جب مَیں پرنسپل بنا، تو میری جو بھی تقاریر ہوتیں، ہمارا ایک کولیگ اُن کی ویڈیو بنا کر یو ٹیوب پر ڈال دیا کرتا۔ 

یہ سلسلہ اِتنا مقبول ہوا کہ اس کی ویوور شپ روز بروز بڑھنے لگی۔ اس کے بعد مجھے مختلف ٹی وی چینلز اور یونی ورسٹیز نے بُلانا شروع کردیا اور پھر جب ریٹائر ہوا، تو پرائیویٹ پریکٹس کے باوجود میرے پاس وقت تھا، اِس لیے اِس طرف زیادہ توجّہ دینا شروع کردی۔ شروع شروع میں تو بہت اچھا لگا کہ لوگ راہ چلتے سیلفی بناتے، حال چال پوچھتے،لیکن پاپولر ہونے کا یہ شوق، پاپولر ہونے کا مزہ ختم ہوگیا اور مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ تو میرے اوپر بہت بڑی ذمّے داری عاید ہوگئی ہے۔ 

اگر مَیں کسی کو غلط ٹیکا لگا دوں،کوئی غلط دوا تجویز کردوں یا مجھ سے اور کوئی غلطی سرزد ہوجائے یا اگر میں کوئی ایسی بات کہہ دوں، جس سے لوگوں کے اذہان میں کوئی غلط بات چلی جائے یا فتور پیدا ہو جائے، تو ان سب کا قصور وار مَیں ہوں گا۔ تو اس کے بعد مَیں نے سنجیدگی سے غور شروع کیا۔ اپنی محنت اور اس کام کو NARROW DOWN کرکے اور کسی مقصد کے گرد فوکس کرکے کرنا شروع کردیا۔ تو یہ ہے، مختصر کہانی اِس سارے سفر کی۔

س: ویسے اپنی کس ویڈیو کو بہترین سمجھتے ہیں؟

ج: دیکھیں، اِس قسم کی تخلیقات تو اولاد کی طرح ہوتی ہیں۔لہٰذا یہ کہنا کہ فلاں بچّہ مجھے زیادہ پیارا ہے، بہت مشکل، بلکہ ناممکن ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مَیں نے برسوں جو باتیں کیں، تو اُن کے ساتھ میری اپنی نشوونما بھی تو ہوئی۔ میرا جو نظریہ آج سے چار سال پہلے تھا، اگر آج بھی وہی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مَیں وقت کے ساتھ بڑا نہیں ہوا۔ 

لہٰذا، بہت سی باتیں ایسی ہیں، جنھیں اگر مَیں دوبارہ کروں، تو کسی اور طریقے سے کروں گا، کیوں کہ اِس دوران میرا مشاہدہ اور تجربہ تبدیل ہوا ہے۔گو کہ مَیں نے آج تک جو بھی باتیں کی ہیں، اُن سب کی ذمّے داری قبول کرتا ہوں، لیکن یہ اُس وقت کے پس منظر میں تھیں، جیسے جیسے وقت و حالات تبدیل ہوتے ہیں، تو انسان کا زاویۂ نگاہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔

س: آپ نے اپنے خیالات سے ہزاروں افراد کو متاثر کیا، آپ خود کس سے متاثر ہیں؟

ج: زندگی میں کن شخصیات نے متاثر کیا یا کون سی کتاب سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے، اِس سوال کا جواب دینا میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔دراصل، میری زندگی میں کچھ ایسے لوگ آئے، جن کی زندگی کا کوئی ایک پہلو اِتنا زیادہ روشن اور اہم تھا کہ اُس ایک پہلو نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا، لیکن اُن کی باقی زندگی اُس سے مختلف تھی۔ 

اِس لیے مَیں کسی ایک شخص کی نشان دہی نہیں کرسکتا، لیکن زندگی میں بہت سے لوگ ایسے آئے، جن کی متعدّد خصوصیات میرے لیے متاثر کُن تھیں۔البتہ ،پھر بھی کسی ایک شخص کا نام لینا ہو، تو وہ میرے والد صاحب ہیں، جو اب اِس دنیا میں نہیں رہے، لیکن وہ خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ کاش! اُن کے اندر جو خوبیاں تھیں، اُن میں سے کچھ میرے اندر بھی آجائیں، تو مَیں خود کو بہت خوش قسمت سمجھوں گا۔

س: آپ کو عام افراد کے مسائل کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے، تو اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہے؟

ج: ہمارے مُلک پاکستان اور اُمّتِ مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے مستقبل پر ذرا سی بھی سرمایہ کاری نہیں کر رہے۔ اِس وقت ہم جو کچھ ہیں، صرف اِسی وجہ سے ہیں کہ ماضی میں ہمارے بڑوں نے ہمارے آج میں کچھ انویسٹ نہیں کیا، یعنی میری تربیت میں جو کچھ ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے مَیں اِتنا مفید نہیں رہا، جو مُلک کو آگے لے کر جاسکتا۔ ہم جس سے بھی پوچھیں، وہ یہی کہتا ہے کہ پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں، اکانومی ٹھیک نہیں، ادارے درست کام نہیں کر رہے، لوگوں کی تربیت ٹھیک نہیں، یہ اِس لیے ہوا کہ آج سے بیس، پچیس سال پہلے جو کچھ ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔ 

میرے خیال میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں کل کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے، وہ ہم بالکل بھی نہیں کر رہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری بچّوں اور نوجوانوں کی تربیت پر کوئی توجّہ نہیں۔ ہمارا تعلیمی،گھریلو اور معاشرتی نظام اگر بہت زور لگا رہا ہے، تو نوجوانوں کو صرف پیسا کمانے کے ہنر سکھانے ہی پر لگا رہا ہے، یعنی ہم کتنے انجینئر پروڈیوس کر رہے ہیں، کتنے ڈاکٹر بنا رہے ہیں اور کتنے بزنس ایگزیکٹیو پیدا کر رہے ہیں، لیکن وہ باکردار انسان جو معاشرے، مُلک اور پوری دنیا کے لیے مفید ہو،اپنی زندگی ایک عزم کے ساتھ گزارنے کے لیے دنیا میں رہ رہا ہو، ہم ایسے افراد پیدا نہیں کر رہے۔ میرے خیال میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے، جس میں ہمارا مستقبل، ہمارے حال سے بھی زیادہ خوف ناک نظر آتا ہے۔

س: آپ کے خیال میں اِس قدر خوف ناک حالات کا ذمّے دار کون ہے؟

ج: کسی نہ کسی حد تک ہم سب ہی اِس کے ذمّے دار ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بنیاد ہی سے اینٹیں غلط رکھ دی جاتی ہیں،تو پھر پوری کی پوری دیوار ٹیڑھی کھڑی ہوتی ہے۔ قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے جانے کے بعد ہمارے مُلک کا سیاسی نظام کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکا اور جو تھوڑے بہت دَور ایسے آئے، جن میں جمہوریت پروان چڑھ سکتی تھی، تب بھی ’’کنڈیشنل‘‘ قسم کا جمہوری نظام آیا، لہٰذا ہمارا معاشرہ مختلف طبقات میں تقسیم ہوگیا۔ کچھ ایسے جن کے پاس سب کچھ تھا اور کچھ ایسے جن کے پاس کچھ نہیں تھا۔

اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو مراعات یافتہ طبقے کے لیے محض کارندے یا خادم بن گئے۔ دیکھ لیجیے، لیاقت علی خان کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں پانچ، چھے حکومتیں بدلیں اور وہ ساری کی ساری لُولی لنگڑی حکومتیں تھیں۔ پھر ایّوب خان کا مارشل لا آگیا، جس میں بہت سے تجربات ہوتے رہے۔ بعض لوگ اسے سنہری دَور کہتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ اُس دَور میں وہ قوّتِ محرّکہ موجود تھی یعنی کچھ تربیت یافتہ لوگ موجود تھے، لیکن بدقسمتی سے اُس دَور میں بھی مستقبل پر کوئی سرمایہ کاری یا توجّہ نہیں دی گئی۔ 

اس کے بعد جو کچھ ہوا، اُس میں ہمارا سیاسی نظام وہ پلیٹ فارم مہیا نہیں کر سکا، جس میں ہمارے ادارے آزادانہ عمل کرسکیں۔ لہٰذا، پاکستان کے اِن حالات کے ذمّے دار بنیادی طور پر تقریباً سارے مراعات یافتہ طبقات ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ ہر بندہ ذمّے دار ہے اور اُن میں عوام بھی شامل ہیں، تو جہاں تک ہمارے عوام کا تعلق ہے، اُنھیں جاہل رکھنے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کرنے، فرقہ وارانہ باتوں، قومیتوں اور زبانوں میں اُلجھائے رکھنے کا اصل فائدہ اِسی مراعات یافتہ طبقے کو ہو رہا تھا، یعنی صرف وہی اس کا بینی فشری تھا، لیکن اس سے دوسرے طبقات بھی انفرادی طور پر فائدہ اٹھاتے رہے۔ 

آپ دیکھیں، جب کوئی شخص بیوروکریٹ بنتا ہے، تو وہ ذاتی سطح پر کتنی ترقّی کرتا ہے۔ اِسی طرح سیاست دان بھی ترقّی کرتا ہے، یعنی ذاتی طور پر تو ہر شخص ترقّی کر رہا ہوتا ہے، لیکن یہی وہ لوگ تھے، جو نظام تبدیل کرسکتے تھے، لیکن اس کے لیے اُنہیں عوام کے ساتھ انصاف کے اصولوں کے مطابق، برابری کی سطح پر کھڑا ہونا پڑتا، تو وہ ایسا نظام کیوں تبدیل کرتے، جس میں اُنہیں مراعات سے محروم ہونے کا خطرہ تھا۔ اِس لیے یہ سب مراعات یافتہ جاگیردار، بیوروکریٹ، سیاست دان، جرنیل، جج اس کے ذمّے دار ہیں، جنہوں نے انفرادی اور ذاتی فائدے کے لیے کوئی ایسی تبدیلی آنے ہی نہیں دی کہ جس سے مجموعی طور پر عوام کو فائدہ پہنچتا۔

س: پاکستان میں ایک مایوسی کی سی فضا ہے،یہ حالات نوجوانوں پر کس قدر اثر انداز ہو رہے ہیں؟

ج: بات یہ ہے کہ نوجوان صلاحیتوں اور امکانات سے بَھرے ہوتے ہیں۔ اُن کے بہت سے خواب ہوتے ہیں، وہ کسی مقصد کے حصول کے لیے بے چین رہتے ہیں۔یعنی جس طرح کوئی درخت مچل رہا ہوتا ہے کہ اُس سے جڑیں نکلیں، کونپلیں پُھوٹیں، پَھلے پُھولیں، پھل نکلیں، پُھول نکلیں اور وہ ایک تن آور درخت بن جائے، لیکن ایک بیج کو ایسا درخت بننے کے لیے زرخیز زمین اور معاون آب وہوا چاہیے۔نیز، کچھ ایسے مالی اور مددگار بھی چاہئیں، جو اُس کی تراش خراش کریں،اُس کے گرد باڑ لگا کر اُسے سردی، گرمی سے بچا سکیں۔ اُسے کھاد، پانی چاہیے اور اگر کسی بیماری کا خطرہ ہو، تو حفاظتی انتظامات بھی درکار ہوتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح نوجوانوں کو بھی زرخیز زمین چاہیے۔ 

ہمارا نوجوان باغی نہیں ہو رہا،لیکن ہم نے اُسے زرخیز زمین ہی نہیں دی۔میرا مختلف یونی ورسٹیز میں جانا ہوتا ہوں اور مَیں یہ دُکھ کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ جب نوجوانوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو آسٹریلیا، یوکے یا امریکا وغیرہ کا ویزا مل جائے، تو یہاں رہنا پسند کریں گے یا پھر وہاں چلے جائیں گے؟پہلے تو وہ مروّت میں کہہ دیتے تھے کہ’’ ہم یہیں رُک کرپاکستان کی خدمت کریں گے۔‘‘، لیکن اب تو100 فی صد نوجوان یہی کہتے ہیں کہ’’ ہم مُلک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔‘‘

جب ایک یونی ورسٹی میں طلبہ سے یہی بات پوچھی اور اُنہیں ہاتھ کھڑے کرکے جواب دینے کو کہا، تو وہاں کے اساتذہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے۔نوجوانوں کی اِس مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اُنہیں یہاں ایسا سازگار ماحول فراہم نہیں کیا، جہاں وہ پنپ سکتے۔ اُنھیں ریسرچ کے مواقع نہیں دیئے۔ ہمارے ہاں ایک دو کو چھوڑ کر کون سی ایسی یونی ورسٹی ہے، جہاں حقیقی معنوں میں ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ ہو رہی ہے۔ ہم نے ایسا ماحول پیدا نہیں کیا کہ نوجوان اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر کاروبار کرسکیں۔ ہمارے یہاں ادارے مدد کرنے والے کم اور بزنس میں رکاوٹیں ڈالنے والے زیادہ ہیں۔ اِس لیے مَیں نہیں سمجھتا کی اس حوالے سے نوجوانوں کا کوئی قصور ہے۔

س: نوجوانوں کے اِن مسائل میں ہمارے تعلیمی نظام کا کتنا عمل دخل ہے؟

ج: اِس ضمن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارا تعلیمی نظام تو کوئی ہے ہی نہیں۔آپ کسی بھی لغت میں دیکھ لیں یا کسی ماہر سے پوچھ لیں، تعلیم کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے، انسان کے کردار کی تشکیل۔جب کہ ہمارا نظامِ تعلیم صرف نمبر حاصل کرنے کی مشینز بناتا ہے تاکہ طلبہ کو روزگار مل سکے۔یوں تعلیمی نظام صرف روزگار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ معاشرے میں کسی شخص میں مفید اور باکردار شہری ہونے کے لیے جو صِفات چاہئیں، اُس میں ہمارا تعلیمی نظام کوئی مدد نہیں کررہا۔ 

ہمارا نصاب، دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے مقاصد اور نصب العین واضح نہیں ہیں۔ اساتذہ روایتی کورس پڑھانے کے’’ ماہر‘‘ ہیں، جو ڈنڈے کے زور پر بچّوں کے دماغ بَھر کے اور پھر اُسے باہر نکال کر اُس کی بنیاد پر اُسے سند دے دیتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام طبقات میں تقسیم ہے۔ ایک تعلیمی نظام وہ ہے، جسے صرف امیر لوگ افورڈ کرسکتے ہیں۔ پھر ایک اسکولز کا نظام ہے،تو دوسرا دینی مدارس کا۔ اِس لیے میرے نزدیک ہمارے تعلیمی نظام کو یک سر overhaul کرنے کی ضرورت ہے۔

س: اِس ساری صورتِ حال میں ہمارا خاندانی نظام بھی تو بُری طرح متاثر ہوا ہے؟

ج: دیکھیے، کسی بھی خاندان کا نصب العین یا اہم ترین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ آنے والی نسل، پچھلی نسل سے بہتر ہو۔ جب آنے والی نسل، پچھلی نسل سے بہتر ہوگی، تب ہی انسانی شعور فروغ پائے گا۔آج تک جتنی بھی انسانی ترقّی ہوئی، وہ اِسی بنیاد پر ہوئی کہ ہر آنے والے انسان نے اپنے علم، فلسفے اور دانش میں اضافہ کیا۔ یہ اضافہ مقدار کے حساب سے بھی ہوا اور معیار کے اعتبار سے بھی۔

خاندان کا کام یہ ہوتا ہے کہ اُس کے تمام افراد آنے والی نسل کی کچھ اِس طرح آب یاری کریں کہ وہ معاشرے کو گزشتہ نسل سے ایک بہتر نسل دے کر جائے۔پھر ایسے افراد خاندانی طور پر بھی ترقّی کریں گے۔ خاندان معاشرے میں وہی حیثیت رکھتا ہے، جو جسم میں خلیے کی ہے اور اگر اکثر خاندان اس طریقے سے کام کریں، تو پورا معاشرہ ترقّی یافتہ ہو جائے۔ اِسی پس منظر میں جنوبی افریقا کی ایک ضرب المثل ہے کہ’’ ایک بچّے کی تربیت میں پورا گائوں حصّہ ڈالتا ہے۔‘‘

ایک زمانے میں جب خاندان مضبوط تھا، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت کمانے والا ایک تھا اور باقی ڈسٹری بیوشن آف لیبر اِس طرح ہوتی کہ اُس میں گھر کے بچّوں کو وقت دینے اور اُن کے کردار کی تشکیل کے لیے بہت سے لوگ موجود ہوتے۔ مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی اور خاص طور پر ماں۔ ہمارے ہاں پچھلے تیس، چالیس سال میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ (اور مغرب میں بھی ایسا ہی ہوا) پیسا ہمارے ہاں ایک بنیادی قدر کے طور پر قبول کیا جانے لگا۔ بلاشبہ، ہر زمانے میں پیسے کی ایک قدر ہوتی تھی، ہونی چاہیے اور ہے بھی،لیکن کئی ایسی چیزیں ہیں، جو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتیں۔ مثلاً دیانت داری، سچّائی، انصاف، کسی کے ساتھ ہم دردی وغیرہ۔ 

جب معاشرے نے پیسے کو ایک بنیادی قدر کے طور پر تسلیم کرلیا، تو بڑا وہی مانا گیا، جس کے پاس پیسا تھا۔ لہٰذا، خاندان اور اُس کے تمام افراد کوالٹی آف لائف بہتر بنانے کے لیے پیسے کے پیچھے بھاگنے لگے۔اِس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ اب معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے گھر کے اخراجات میں کئی گُنا اضافہ ہوچُکا ہے۔ اِس طرزِ فکر اور بھاگ دوڑ کے ذیلی اثرات یہ نکلے کہ والدین کے پاس بچّوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں بچا اور ہمارے ذہن میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ اِس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ 

اگر ہم اُنھیں وقت نہیں دے سکتے تو ہم Out Source کر کے اُس کی ذمّے داری کسی اور کے سپرد کر دیں گے۔ چناں چہ، ہم نے بچّوں کی تربیت کو منہگے اسکولز، اکیڈمیز، الیکٹرانک آلات (کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فونز وغیرہ) کے سپرد کردیا، لیکن یہ سب والدین کے متبادل نہیں۔ والدین کا متبادل تو دنیا کی کوئی بھی چیز نہیں ہوسکتی۔

پیسے کو بنیادی قدر سمجھنے کی وجہ سے وہ وقت جو رشتوں کی پاسبانی اور گرومنگ کے لیے چاہیے تھا، وہ نہیں دیا جارہا۔ اگر آپ دکان کھول لیں اور اُسے وقت نہ دیں، تو وہ اُجڑ جائے گی۔ بالکل اِسی طرح اگر آپ بچّوں کو وقت نہ دیں، تو وہ بھی بگڑ، اُجڑ جائیں گے۔

س: والدین اپنی ذمّے داریاں اساتذہ کو منتقل کر دیتے ہیں، مگر وہ بھی اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں؟

ج: دیکھیے، والدین ہوں یا اسکول کے اساتذہ، اُن کے نزدیک بچّوں کی تعلیم و تربیت کا صرف یہی ایک پیمانہ ہے کہ اُن کے نمبر کتنے آتے ہیں اور اگر نمبر ٹھیک آتے ہیں، یونی ورسٹیز میں داخلہ ہو جاتا ہے، تو پھر سب ٹھیک اور’’واہ واہ‘‘ ہے۔کہتے ہیں’’ میرے چار بچّے تھے اور مَیں نے سب کی اچھی تربیت کی۔ اُن کا داخلہ اچھے اداروں میں ہوگیا۔‘‘ اِس سوچ پر نظرِثانی کی ضرورت ہے۔بچّوں کے اچھے کردار کی نمو، والدین اور اساتذہ کی کوشش اور ترجیح ہی نہیں رہی۔

س: آپ برس ہا برس سے شعبۂ طب سے وابستہ ہیں۔ لوگ شوگر، بلڈ پریشر، معدے اور دل کے امراض میں گِھرے ہوئے ہیں۔گویا مُلک ’’بیمارستان‘‘ بن چُکا ہے، تو آپ کے خیال میں ان سب کا ذمّے دار کون ہے؟

ج: آپ سوچیں گے، میرے سارے جوابات مایوسی کے مظہر ہیں، لیکن کیا کروں، حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں شعبۂ طب میں سب سے غلط تو یہ ہے کہ ساری توجّہ بیماریوں کے علاج پر مرکوز ہے۔ ہم کیا کھاتے ہیں، کب کھاتے ہیں، کتنا کھاتے ہیں اور کتنا آرام کرتے ہیں، اِس بات پر کوئی توجّہ ہی نہیں دی جاتی کہ بیماری کی نوبت ہی نہ آئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر ان باتوں کا تعلق طب سے بھی نہیں۔ 

جیسا کہ ناصاف پانی، ناصاف ہوا، گلیوں کُوچوں میں عدم صفائی، جنک فوڈ کا ستعمال اور دیگر مضرِ صحت عادات۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں صحت بخش رجحانات یعنی سیر وسیّاحت، ورزش، تفریحی اورجسمانی سرگرمیاں بہت کم ہیں۔ یہ ایسے عوامل ہیں، جو بیماریوں سے بچاتے ہیں۔جہاں یہ عادات اپنائی جائیں، وہاں بیماریاں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اِس ساری صُورتِ حال میں حکومتی نظام کا بھی عمل دخل ہے، لیکن ہم بطور فرد بھی اس کے ذمّے دار ہیں۔

س: کیا انسان کسی بھی مرحلے پر اپنی خامیوں پر قابو پا کر اپنے اندر مثبت تبدیلی لا سکتا ہے؟

ج: جی ہاں، ایسا بالکل ہوسکتا ہے۔ انسان کسی بھی مرحلے پر اپنے آپ کو بدل سکتا ہے۔ اگر بدل نہ سکتا ہو، تو پھر ہدایت کے کیا معنی اور آخرت میں جو سوال، جواب ہونے ہیں، وہ بھی غیر متعلق ہو جاتے ہیں، جنّت اور دوزخ کا وعدہ بھی اِس لیے ہے کہ انسان اچھائی اور بُرائی کے انتخاب میں خود مختار ہے۔ 

تاہم، ایک بات بتانا ضروری ہے کہ ہم سب کی عادات 10سال کی عُمر تک پختہ ہو جاتی ہیں اور تقریباً 90فی صد افراد پھر ان عادات ہی پر زندگی گزارتے ہیں، جنھیں Habit Brain کہتے ہیں، لیکن 10فی صد کی ہمیشہ ایک کھڑکی کُھلی رہتی ہے اور اسے Conscious Brain کہتے ہیں۔ 

فرق یہ ہے کہ ہم چھوٹے بچّوں کو تو اردگرد کے ماحول میں تبدیلی سے بدل سکتے ہیں، لیکن بالغ افراد کو بدلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ خود یہ فیصلہ کریں کہ اُنہیں بدلنا ہے۔ لہٰذا، اگر کوئی شخص یہ فیصلہ کرلے کہ ’’میرے اندر یہ نقص ہے اور مجھے اسے تبدیل کرنا ہے اور بُری عادات چھوڑ کر اچھی عادات اپنانی ہیں‘‘ تو وہ لازماً ایسا کرسکتا ہے۔

س: صحت مند زندگی کے اصول کیا ہیں؟ اِس ضمن میں آپ کا تجربہ اور مشاہدہ کیا کہتا ہے؟

ج: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں کھانے پینے، آرام اور ورزش پر بہت توجّہ دینی چاہیے۔ پھر یہ کہ کیا ہم ایسی زندگی گزارتے ہیں کہ تناؤ، ڈیپریشن میں نہ رہیں۔ ہم غیر ضروری خیالات اپنے دماغ میں پال کر رکھتے ہیں۔مثلاً کسی کو معاف کیا جاسکتا ہو، لیکن ہم معاف نہ کریں۔ کسی سے دوستی کی جاسکتی ہو، مگر اُس سے دشمنی کریں۔ اگر صرف اِن بنیادی باتوں کا خیال رکھ لیا جائے، تو ایک صحت مند زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔

س: ڈاکٹر صاحب! اب آپ کی ذاتی زندگی سے متعلق چند سوالات، شادی اپنی پسند سے کی یا والدین کی مرضی سے؟

ج: میری ارینجڈ میرج ہے۔ میری اہلیہ، میری ماموں زاد ہیں اور میرے لیے اُن کا انتخاب والدین نے کیا۔

س: بچّے کتنے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟

ج: میرے 4بچّے ہیں، جن میں سے تین شادی شدہ ہیں۔ دو بیٹے اور بیٹی ڈاکٹر ہیں، جب کہ ایک بیٹا یونی ورسٹی سے کمپیوٹر سائنسز پڑھ رہا ہے۔

س: آپ کی زندگی کا کوئی یادگار لمحہ؟

ج: یہ سوال میرے لیے ہمیشہ ہی بہت مشکل رہا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم زندگی بہترین طریقے سے گزاریں اور لمحۂ موجود کو 100 فی صد دیں، تو ہمارا ہر لمحہ یادگار ہوسکتا ہے۔ دیکھیے، اگر کسی شخص کو یہ کہا جائے کہ تمہاری جان ابھی ختم ہونے والی ہے، لیکن تمہیں ایک سانس لینے کی اجازت ہے، تو وہ ایک سانس اُس کی زندگی کا یادگار لمحہ ہوگا۔ ہماری ساری سانسیں اِسی طرح ہیں۔ لہٰذا ہمارا ہر لمحہ ہی زندگی کا یادگار لمحہ ہونا چاہیے۔

س: زندگی کی پہلی کمائی؟

ج: میرا ایف ایس سی فرسٹ ایئر کا رزلٹ آیا، تو بہت اچھے نمبرز آئے۔ ہمارے محلّے میں میرا ایک کلاس فیلو رہتا تھا، وہ بے چارہ فیل ہوگیا۔ شام کو اُس کے والد صاحب اُسے میرے پاس لے کر آئے کہ اسے پڑھا دیا کرو۔ مَیں نے اُسے پڑھانا شروع کردیا۔ مَیں اُسے فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی پڑھا دیا کرتا تھا۔ 

جب ایک مہینہ گزرا، تو اُس کے والد نے ایک لفافہ لاکھ منع کرنے کے باوجود زبردستی میری جیب میں ڈال دیا۔ مَیں نے لفافہ کھول کر دیکھا، تو اُس میں ڈیڑھ سو روپے تھے۔ یہ 1977ء کی بات ہے، جب مجھے ماہانہ 30روپے جیب خرچ ملا کرتا تھا۔وہ رقم ملنے پر میری خوشی دیکھنے والی تھی اور بس وہی میری زندگی کی پہلی کمائی تھی۔

س: کبھی رونے کو جی چاہا؟

ج: اصل میں ایک جی چاہنا ہے اور ایک اچانک کسی بات پر رونا آ جانا ہے۔ یہ اچانک کسی بات پر رونا، انسانی جذبات کے اظہار کا مؤثر ترین طریقہ ہے۔ انسان کو اپنی تربیت اِس طرح کرنی چاہیے کہ رو کر اپنے جذبات کا اظہار کسی انسان کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور کرے۔ لہٰذا، وہ آنسو ہی اصل آنسو ہیں، جو تنہائی میں جائے نماز پر نکلیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کے سامنے رونا نہ پڑے۔

س: کبھی اُداسی طاری ہوئی؟

ج: جی ایسا ہوتا ہے۔ خوشی کے لمحات کی طرح انسان پر اداسی کا لمحہ بھی آتا ہے اور میرے خیال میں اداسی کو بھی جینا چاہیے۔ جس طرح ہم وصل سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، اُسی طرح ہجر سے بھی فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ اصل میں اداسی اور خوشی ایک سکّے کے دو رُخ ہیں، جیسے فرض کریں آپ ایک سکّہ خریدیں تو اُس کا ایک ہیڈ اور ایک ٹیل ہوگا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مَیں نے صرف ہیڈ لینا ہے، ٹیل نہیں۔ ٹیل نظر نہیں آرہا ہوگا، لیکن وہ موجود ہوگا۔ اِسی طرح غم اور خوشی، زندگی اور موت، دن اور رات سکّے کے دو رُخ ہیں۔

س: زندگی کا کوئی پچھتاوا؟

ج: مَیں کوئی بھی ایسی بات نہیں بتا سکتا، جسے مَیں کہوں کہ یہ میری زندگی کا پچھتاوا ہے۔ مَیں اللہ تعالیٰ کا شُکر گزار ہوں۔

س: کوئی خواہش، جو پوری نہ ہوئی ہو؟

ج: کوئی اس پر یقین کرے، نہ کرے، لیکن سچ یہی ہے کہ جب سے مجھے شعور آیا ہے، مَیں خواہشات کے بغیر زندگی گزارتا ہوں۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ مَیں محنت یا جدوجہد نہیں کرتا، لیکن یہ بات دیانت داری سے بتا رہا ہوں کہ مَیں نے’’یہ حاصل کرنا ہے‘‘ خواہش کے طور پر کبھی نہیں سوچا۔

س: کون سی دُعا ہمیشہ آپ کے لبوں پر رہتی ہے؟

ج: وہ یہ ہے کہ باقی ساری چیزیں تو اللہ نے دِکھا ہی دیں، لیکن اِس دنیا سے جو رخصتی ہو، اُس کے لیے ہمیشہ لبوں پر دُعا رہتی ہے کہ وہ رخصتی احساس اور شعور کے ساتھ ہو۔ احساس کا مطلب ہے کہ اِس دنیا سے ایمان کے ساتھ جانا۔ یعنی انسان جب دنیا سے جارہا ہو، تو جس طرح ٹرین پر بیٹھنے والا مسافر ہاتھ ہلا ہلا کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ’’اچھا خدا حافظ‘‘،’’ اوکے ، بہت مزہ آیا‘‘،’’ بے حد اچھا لگا، یہاں آکے‘‘،’’ تھینک یو ویری مچ‘‘،’’ خدا حافظ‘‘،’’ بائے بائے‘‘ جو ایسا کر کے، جیسے پنجابی میں کہتے ہیں’’رَج‘‘ کے، یہاں سے جائے اور جاتے وقت یہ احساس اور شعور ساتھ ہو کہ وہ ایمان کے ساتھ رخصت ہو رہا ہے اور اُسے پوری شعوری طاقت کے ساتھ پتا ہو کہ میرا ایک پیدا کرنے والا ہے اور نبی کریمﷺ اُس کے آخری نبی ہیں اور وہ زندگی سے متعلق شُکر گزاری کے احساس سے لب ریز ہو۔تو بس اب یہی تمّا اور دعا ہے۔ یوں کہیں، میرے لبوں پر ہمیشہ یہ دُعا رہتی ہے کہ’’ یااللہ! خاتمہ بالخیر ہو۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید