• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب مصطفی نواز کھوکھر،جناب شاہد خاقان عباسی اور جناب مفتاح اسماعیل نے قومی مکالمے کا بھاری پتھر اٹھایا ہے۔یہ اقدام حبس زدہ ماحول میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت قومی سطح پر مکالمے کا رجحان تقریباً دم توڑ چکا ہے۔اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی سمجھا جاتا ہے،دلیل کے ساتھ بات کرنے کا رجحان بتدریج کم ہو رہا ہے،دلیل کی جگہ گالی نے لے لی ہے،جھوٹے اعداد و شمار کے پہاڑ کھڑے کر کے قوم کو گمراہ کرنےکیلئے بے مغز تقاریر کی جاتی ہیں اور مضامین لکھوائے جاتے ہیں،ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کی عدم موجودگی کی وجہ سے صحت مند مکالمے کا ماحول ہی موجود نہیں،موروثیت کے منحوس سائے قومی سیاسی جماعتوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں عہدوں کی تقسیم میرٹ کی بجائے لیڈر کیساتھ رشتہ داری دیکھ کر کی جاتی ہے۔باصلاحیت لوگ لیڈر کے رشتہ دار نہ ہونے کی وجہ سے ساری عمر پچھلے بنچوں پر بیٹھ کر گزار دیتے ہیں۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کسی حد تک اس حوالے سے اچھی شہرت رکھتی ہیں کہ وہاں خاندانی تعلقات کی بنیاد پر عہدوں کی بندر بانٹ نہیں ہوتی۔سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے کرنے والے لوگوں کو یا تو بے اثر کر دیا جاتا ہے یا پارٹی سے ہی نکال دیا جاتا ہے،بدقسمتی سے ملک کی ٹاپ لیڈر شپ میں مطالعہ کا شوق ہی موجود نہیں اور نہ ہی اہل علم سے مفید اور بامقصد استفادہ کا ذوق ہے۔ لیڈر شپ کے پاس نہ وژن ہے اور نہ اس بھنور سے نکلنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ۔ اس پر مستزاد یہ کہ سرِدست پورے ملک میں کوئی ایسا فورم موجود نہیں جہاں قومی مسائل پر حقائق پر مبنی غیر جانبدارانہ گفتگو کی جائے۔دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں وہاں کے مفکرین پر مشتمل تھنک ٹینک کام کرتے ہیں جو پیش آمدہ مسائل پر قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں لیکن پاکستان میں اس طرح کا کوئی ادارہ یا فورم موجود نہیں۔یوں تو یہ کردار پارلیمنٹ کو ادا کرنا چاہئے تھا جہاں پر قومی مسائل کے حوالے سے اراکین پارلیمنٹ کو درست معلومات فراہم کی جاتیں اور اراکین پارلیمنٹ بھی ان کے حل کیلئے اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر تجاویز پیش کرتے لیکن اگر ہم اپنے سیاسی قائدین کی تقاریر اور بیانات کے موضوعات دیکھیں تو حیران کن طور پر ان کا عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ان موضوعات میں کبھی تو اٹھارویں ترمیم زیر بحث آتی ہیں،کبھی الیکشن کمیشن کی تشکیل پر بات کی جاتی ہے اور کبھی صدارتی اختیارات زیر بحث آتے ہیںلیکن عوام کے حقیقی مسائل پر کوئی بھی شخص بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔ پاکستان جن گمبھیر مسائل کا شکار ہے وہ کسی بھی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں۔ بڑھتی ہوئی غربت نے پاکستانی معاشرے کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے۔مفتاح اسماعیل کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق75 سال بعد ہمارے نصف بچے اسکولوں سے باہر ہیں، 40 فیصد بچے جسمانی صحت کے حوالے سے کمزور ہیں، 18 فیصد بچے ضائع ہو رہے ہیں، 28 فیصد کم وزن ہیں، ہر سال 55 لاکھ نئے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ 8کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، بے روزگاری ہے، بجلی کے زائد نرخوں کی وجہ سے پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے'اس لئےہمارے لیڈروں کو مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ 21 جنوری کو اس فورم کے تحت پہلا سیمینار منعقد ہوا جو اتفاق رائے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم تھا۔اس سیمینار کے انعقاد سے قبل مصطفیٰ نواز کھوکھر نے لکھا’’پاکستان کے موجودہ معاشی، سیاسی اور سماجی بحران کے بارے میں ہم بات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ بحران اب ریاست اور معاشرے کی مرکزی بنیادوں پر کاری ضرب لگا رہا ہے۔پاکستان میں علاقائی اور نسلی تقسیم مزید گہری ہو رہی ہے اور ہر سطح پر عدم اطمینان کی کیفیت ہے۔‘‘میں سمجھتا ہوں اس وقت پاکستان کو ان سماجی مسائل سے نبٹنے کے لئے اجتماعی دانش کی ضرورت ہے۔اس فورم کی تشکیل میں اوپر ذکر کئے گئے تین ناموں کے علاوہ بلوچستان کے اہم رہنما حاجی لشکری رئیسانی،خواجہ محمد خان ہوتی، ہمایوں کرد،سابق بیوروکریٹ فواد حسن فواد اور کچھ دیگر رہنما بھی شامل ہیں،پہلے سیمینار کے انعقاد کیلئے بلوچستان کا انتخاب بہت معنی خیز ہے۔رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ جن مسائل سے دوچار ہے وہ اظہر من الشمس ہیں۔ بلوچستان کی محرومی دور کرنے کیلئے ایک قومی مکالمےکیلئے مناسب ترین جگہ بلوچستان ہی ہےتاکہ بے چینی کا شکار نوجوانوں کو اس مکالمے میں شامل کیا جائے اس فورم کے ابتدائی تین رہنماؤں میں سے جناب مصطفی نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل مکمل طورپر آزادانہ اظہار رائے کرتے ہیں لیکن جناب شاہد خاقان عباسی کی گفتگو میں اب بھی جماعتی پابندی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اگرچہ انہوں نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور ان غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا پڑیں گے۔اس سطح کے رہنماؤں کو اب سیاسی وابستگیاں چھوڑ کر صرف ریاست کیلئےبات کرنی چاہئے۔ سیمینار کے شرکاء پاکستان کو درپیش مسائل کی بنیادوں سے آگاہ ہیں اور ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کے یہ باصلاحیت افراد ملک بھر سے ایسے دانشوروں کو اکٹھا کرینگے جو صرف ملک اور ریاست پر بات کریں۔ریاستی ادارے ان کی گفتگو پر کان دھریں۔ پالیسی معاملات پر وہ سب کو رہنمائی مہیا کریں۔یہ کام سیاسی رہنما ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔

تازہ ترین