• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم ایک درد مند انسان کو یاد کریں گے۔

پاکستان سے عشق کرنے والے۔ پاکستانیوں کا ہمیشہ خیال رکھنے والے۔ ریاست پاکستان کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کرنے والے۔ پاکستان کے وسائل پر یقین کرنے والے۔بد ترین حالات میں بھی پاکستان سے سرمایہ لے جاکر کسی اور ملک میں لگانے کا نہیں سوچا۔ جس نے حرف و دانش سے وابستہ شخصیات کا ہمیشہ احترام کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ اس کا مذہب کیا ہے، زبان کونسی بولتا ہے،۔ قبیلہ کونسا ہے، برادری کونسی ہے۔

بہت سے دوستوں کے لئے بابا اور بہت سے مستحقین کے لئے ایک سائبان۔ ہمیشہ ایک مسکراہٹ اور چمکتی آنکھیں دور سے ہی آپ کے سینے میں موجزن طوفان کا احساس کرنے والے۔ بہرام ڈنشا آواری۔ دنیا سے اٹھ گئے۔

ایک عہد بیت گیا۔ عام لوگوں کے لئے ہوٹل صنعت کا ایک بڑا نام۔ ایک بڑے کاروباری۔ لیکن وہ ان چند پاکستانیوں میں سے تھے جو اس عظیم مملکت کے بحرانوں پر سخت تشویش میں رہتے تھے۔ انتخابات قریب آتے تو ان کا فون آجاتا کہ آئیے بیٹھ کر کچھ مستقبل کی فکر کریں۔ جس جس کو مناسب سمجھیں بلالیں۔صدر جنرل پرویز مشرف اور چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے درمیان تنازع شروع ہوا تو سب سے پہلے بابا کا ہی فون تھا۔ جس سے ہمیں اس تشویشناک مگر فیصلہ کن موڑ کی اطلاع ملی۔ وہ اسے ملک کے مستقبل کے لئے خطرناک قرار دے رہے تھے اور بعد میں یہ ثابت بھی ہوا۔

ہمیں ان کے مہرباں والد ڈنشا آواری کے ساتھ نشستوں کا بھی اتفاق رہا ہے۔ وہ بھی ایک مہربان اور پاکستان کا درد رکھنے والے کاروباری تھے۔ بہرام صاحب نے اپنے والد کے صرف ورثے کو ہی نہیں بلکہ ان کے اقوال اور نصیحتوں کو بھی سنبھال کر رکھا۔ اپنے کاروبار کو بھی پورے ملک میں پھیلایا۔ آئی ٹی مبورا ہوٹل نئی دہلی کے جنرل منیجر نے ایک بار یہ بتایا کہ ہم ہر روز آواری لاہور سے کچھ کھانے منگواتے ہیں جو ہمارے مہمانوں کی فرمائش ہے۔

کتنی یادیں اس وقت ذہن میں لہرارہی ہیں۔ کراچی کی بھی۔ اسلام آباد، ٹورنٹو، لاہور کی بھی۔ ملک میں حالات کبھی معمول پر نہیں رہے۔ اس لئےوہ ہمیشہ تشویش ظاہر کرتے۔ ان سے وابستگان میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کتنے صدر وزیر اعظم۔ وزراء۔ اپوزیشن لیڈر رہے ہیں۔ ان سب سے وہ کھل کر اظہار خیال کرتے تھے۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنے اپوزیشن دَور میں بابا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جب وزیر اعظم بنے تو چائے پینے کے لئے بیچ لگژری آئیں گے۔ انہوں نے وعدہ نبھایا۔ بہت دل نشیں محفل سجی تھی۔ میاں صاحب نے بہت سی اقتصادی تبدیلیوں کا بہرام صاحب کے مشورے کے بعد اعلان بھی کیا۔ مخدوم محمد امین فہیم سے بھی ان کی نشست رہتی تھی۔ ملک معراج خالد نگراں وزیر اعظم بنے تو وہ بھی ان سے ملنے آئے۔ ملک معراج خالد بھی پاکستان کے ان چند دردمندوں میں سے تھے جنہوں نے کبھی اصولوں کا دامن نہیں چھوڑا۔ حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کروانے والے ایڈیٹر مصطفی صادق بھی آواری صاحب کے دوستوں میں تھے۔

اُردو پڑھ نہیں سکتے تھے۔ لیکن اُردو کے اساتذہ، قلم کاروں، ناول نویسوں۔ شعرا کے لئے ہمیشہ دیدہ و دل بچھائے رکھتے۔ کراچی لاہور کے حرف شناس سب ہی جانتے ہیں کہ وہ کتابوں کی رُونمائی کے لئے۔ سماجی خدمات والی انجمنوں کی تقریبات کے لئے اکثر ہوٹل کے ہال، کمرے، چائے، فواکہات اعزازی دیا کرتے تھے۔ ان کی انتظامیہ اس پر اعتراض کرتی تھی۔ بابا کا کہنا تھا کہ کاروباری منفعت صرف مالی فائدہ نہیں ہے بلکہ کاروباری سرگرمی سے آپ کو احترام، عزت، امتیاز، اچھے بول بھی ملنے چاہئیں۔ عالمگیر وبا کووڈ کے دنو ںمیں جب ہوٹلوں پر ویرانیاں غالب آگئیں۔ اس وبا کی سب سے زیادہ زد ہوٹل اور سیاحت کی صنعتوں پر پڑی۔ اکثر ہوٹلوں اور ٹریول ایجنسیوں نے پریشان ہوکر اپنے ملازمین کی پہلے تو تنخواہیں کم کردیں پھر خاصی بڑی تعداد کو فارغ بھی کر دیا۔ بہرام صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ نقصان برداشت کر لیا۔ ملازمین کو گھر بیٹھے تنخواہیں دیں اور اچھے وقت کا انتظار کیا۔ ان کے چھوٹے بڑے رفقائے کار آج ان کے جانے کے بعد خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں کہ وہ ایک اچھےمہربان باس تھے۔ مخصوص اقلیتی نشست پر وہ 1988ءسے 1993 تک قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ اقلیتی رکن کا حلقہ پورا پاکستان ہوتا ہے۔ اگر چہ پارسی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن کیلاش کے غیر مسلم، ہندو، سکھ سب ان کی ذمہ داری تھے۔ پورے پاکستان کے غیرمسلموں کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے ننکانہ صاحب سمیت مختلف گوردواروں، مندروں کی دیکھ بھال بھی کی۔ ٹھٹھہ کی بہائی برادری کے لئے پینے کے پانی کی فراہمی اور نکاسیٔ آب کی اسکیمیں بھی منظور کروائیں۔ کراچی کی پارسی برادری کی تعلیم کے شعبے میں بہت خدمات ہیں۔ کراچی پارسی انجمن کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے پارسی برادری کے اسکولوں کا معیاربرقرار رکھنے کے لئے ہمیشہ کوششیں جاری رکھیں۔ وہ نئی صدی میں اگر چہ پاکستانی سیاست سے دستبردار ہوگئے تھے۔ لیکن انسانیت کی خدمت سےعلیحدہ نہیں ہوئے۔پاکستان میں مسائل اور غم و آلام کے سیلاب ہمیشہ جاری رہتے ہیں۔ ہر پاکستانی کو پیراکی میں مہارت ہونی چاہئے۔ بہرام آواری نے پیراکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ پھر کشتی رانی میں تو انہوں نے ایشیائی کھیلوں میں گولڈ میڈل بھی لئے۔ بنکاک میں 1978 ء میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ اور 1982ءمیں نئی دہلی میں اپنی رفیقۂ حیات گوشی آواری کے ساتھ طلائی تمغہ جیتا۔

اپنی والدہ کے نام سے موسوم رہائش گاہ خورشید ولّا میں ہی وہ سفارتی سماجی محفلیں برپا کرتے تھے۔ ان کی موت کیساتھ میزبانی، سماجی خدمات، علمی سرپرستی کا ایک طویل عہد رخصت ہوگیا۔ ان دنوں پاکستان جس انارکی ، انتشار اور ادبار سے گزر رہا ہے۔ دشنام طرازی عام ہے۔ بجلی کے بریک ڈائون ہورہے ہیں۔ درآمد کنندگان کی ایل سیز نہیں کھل رہیں۔ لوگ بینکوں میں جمع کروائے ہوئے اپنے ہی ڈالر نہیں لے پارہے ۔ ایسے میں ایک تحمل مزاج کاروباری بصیرت رکھنے والےپاکستانی کا چلے جانا بہت اداس کردیتا ہے لیکن یہ قدرت کا اپنا نظام ہے۔ جس طرح سینئر ڈنشا نے بہرام صاحب کی تربیت کی۔ بہرام صاحب بھی اپنے بیٹوں ڈنشا۔ زیریکس اور بیٹی زینا کی ایسی پرورش کرگئے ہیں کہ وہ یقیناً اپنے عظیم والد کے نقش قدم کی پیروی کریں گے۔ ایسے بڑے لوگوں کی املاک کی میراث تو آئندہ نسل کو منتقل ہوجاتی ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جانے والے کا حلم، حرف شناسی، انسان نوازی اور علم و دانش کا احترام کونسی اولاد کے حصّے میں آتا ہے۔

تازہ ترین