• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستانی معیشت پر منڈلاتے خطرات انتہا کی طرف بڑھتے دکھائی رہےہیں۔ زر مبادلہ کے موجودہ ذخائر ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ غیر ملکی کرنسی کی قلت کے سبب عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) اور حکومت پاکستان کے درمیان ڈیڈ لاک بگڑتی صورتحال کو ہوا دینے کا باعث بن رہا ہے جبکہ اقتصادی ماہرین پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط کا معاہدہ ہی مزید قرضوں اور امداد کے حصول کی راہیں کھول سکے گا جبکہ آئی ایم ایف کی نظر اس وقت پاکستان میں ڈالر کے بحران اور بلیک میں فروخت ہونے پر ہے ۔ مارکیٹ کے مطابق ایڈجسٹمنٹ اورانٹر بنک میں عائد غیراعلانیہ کیپ ختم ہونا اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے تحت ایک دن میں ڈالر 28.50جبکہ اوپن مارکیٹ میں 19.60روپے تک مہنگا ہوگیا جس سے اس کی قیمت 260 روپے اور پاکستان پر واجب الادا غیرملکی قرضوں میں یک لخت 2800 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 4900 روپے بڑھ کر ایک لاکھ 95 ہزار 500 روپے فی تولہ اسی طرح چاندی 50 روپے بڑھ کر 2150 روپے فی تولہ ہوگئی۔ یہ ملکی تاریخ میں سونے اور چاندی کی قیمت کا نیا ریکارڈ ہے۔ ایسا سب کیونکر ہوا اور کیا ناگزیر تھا ؟ اس تناظر میں 24 جنوری کو ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے ڈالر پر عائد کیپ (فکس ریٹ) ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اس کی صراحت یوں کی تھی کہ ڈالر کی قیمت پر پابندی ختم ہوجانے سے بلیک میں فروخت کی غرض سے چھپایا جانے والا غیر ملکی سرمایہ گردش میں آجائے گا اور ملک میں ڈالر کی قلت دور ہوگی اور بلیک مارکیٹ کی حوصلہ شکنی ہوسکے گی۔ تاجروں اور صنعتی حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک ہی روز میں روپے کی قدر 10.6 فیصدکم ہوجانے سے درآمدی اشیا اور خام مال کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مزید بڑھنے سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پیٹرول کی قیمتیں اوسطاً 300 روپے فی لیٹر تک پہنچ سکتی ہیں تاہم معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈالر کی شرح پر سے کیپ ہٹانا آخری آپشن تھا۔ یہ بات بجا ہے کہ گذشتہ چند روز سے ملک میں ڈالر کا بحران اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ کراچی بندرگاہ پر متعدد کنٹینر اسلئے کلیئر نہیں ہورہے تھے کہ امپورٹرز کے پاس ادائیگی کےلئے زرمبادلہ نہیں تھا جبکہ درآمدی خام مال فیکٹریوں تک نہ پہنچنے سے ملک میں ادویات کی قلت سمیت بہت سی مصنوعات کا بحران سر پر منڈلارہا تھا۔ ڈالر پر سے کیپ ہٹانے کے بعد آئی ایم ایف نے 9ویں جائزہ کی تکمیل اور ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط کے اجرا کیلئے اگلے ہفتے سے پاکستانی حکام کے ساتھ باضابطہ مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جسمیں سیلاب متاثرین کی بحالی کے اقدامات پر بھی بات چیت ہوگی نیز توانائی سیکٹر میں گردشی قرضے کم کرنے کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ یہ بات نہایت باعث تشویش ہے کہ اسٹیٹ بنک کے پاس اسوقت زر مبادلہ کے ذخائر مزید کم ہوکر6.3ارب ڈالر رہ گئے ہیں اور آئی ایم ایف سے ممکنہ طور پر ایک ارب ڈالر ملنے کے باوجود یہ حج 6.4 ارب ڈالر تک پہنچ پائے گا جبکہ ماہرین کے تخمینوں کے مطابق محفوظ ذخائر کی کسوٹی کم از کم 12 ارب ڈالر ہے۔ ادھر آئی ایم ایف نئی قسط کے اجرا کو حکومت پاکستان کیلئے مزید سخت اقدامات کرنے سے مشروط کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات ملحوظ رہے کہ انتہائی مہنگائی کے باعث عام آدمی کی حالت غیر ہوچکی ہے اور ایسا کوئی قدم اٹھانا اس کی تکالیف پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا جس سے مہنگائی میں کسی بھی قسم کا اضافہ کرنا پڑے۔

تازہ ترین