• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبر داد خان
پشاور میں حالیہ خوفناک واقعہ میں 100سے زائد لوگ شہید اور اس سے زائد زخمی ہوئے ،نے انتخابات مشکل بنا دیئے ہیں، ان انتخابات کیلئے جس طرح حالات تبدیلیوں کا شکار ہو رہے تھے، ان کی پیچیدگیاں معمہ سے کم نہیں پھر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو یقین ہے کہ آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مرکزی حکومت ان انتخابات کا انعقاد کرا دےگی، سیاست میں بڑے کرداروں کی ہمیشہ ایک دوسرے کو ضرورت رہتی ہے خواہ وہ بظاہر ایک دوسرے سےدشمنی کرتے ہی نظرآتے ہوں، اس کی بہترین مثال موجودہ حکومت اور عمران خان کے درمیان چلتاکھیل ہے، حکومت کی صدر مملکت کی معرفت پی ٹی آئی چیئرمین سے بات چیت تصویر کادوسرا پہلو ہے، جب سے PTI قومی اسمبلی سے نکلی ہے حکومت نے ہر وہ قانون پاس کروا لیا ہے جس کا ایک اپوزیشن والی جمہوریت میں تصور بھی نہیں کیاجاسکتا، اس لحاظ سے ان قوانین پر یہ دھبہ ہمیشہ موجودرہے گا کہ وہ ایسے وقت میں منظور کئے گئے جب حقیقی حزب اختلاف یعنی PTI اسمبلی کے اندر موجود نہ تھی ورنہ حکومت کی تمام تجاویز کبھی من و عن قانون نہ بن پاتیں،حکومت کا حقیقی حزب اختلاف کے ساتھ آٹھ ماہ سے سانپ اور سیڑھی کاکھیل چل رہا ہے اورحکومت کی ہر ممکن توقع رہی ہے کہ کسی طرح PTI واپس ایوان میں آجائے اور اس کی قانون سازی کو جائز مقام مل جائے، ایسا ہوتے رہ گیا مگر ان چند مہینوں میں درجنوں مقدمات کا دبائو اور ان کی سیاسی زندگی میں رکاوٹوں کی داستان بھی PTI چیف کی ثابت قدمی کو نہیں توڑ سکی، حکومت ہر موقع پر PTI چیف کی مقبولیت کی جانچ کرنے سے کتراتی چلی آرہی ہے، وہ اپنے لئے ایک اور بانجھ سیاسی ماحول پیدا نہیں کر رہی ، اگر وہ رائے عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے نئے قومی انتخابات کی طرف بڑھ جاتی ہے تو انہیں شکست کا خوف ہے اور وہ یہ خطرہ مول نہیں لے رہی۔ ایک طرف انہوں نے PTI سے ’’عوامی جمہوریت‘‘ والی مہر لگوانے کا آپشن گنوادیا ہے جس کے بغیر باہر کی دنیا اوراہم ماحولیاتی ادارے حکومتی بیانات اور اعدادوشمار کو جعلی سمجھتے رہیں گے اور دوسری طرف ملک کے اندر عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ افراط زر اور مہنگائی پر ان کی پالیسیوں سے ناخوش رہے گا، حکومت کو PTI سے مذاکرات کے ذریعہ اعتماد اور خوش اسلوبی کا ماحول پیدا کرنا چاہئے تاکہ معیشت پر پاکستان کا مضبوط نقطہ نظرسامنے آتا رہے اور ملک آئے دن معاشی مشکلات کے بھنور میں نہ پھنستا چلا جائے، ایسے ماحول کے حصول کیلئے عمران خان سے بات چیت ضروری ہے جو نہیں ہو رہی، نصف درجن معاملات میں عمران خان گرفتاری کے قریب ہیں مگر حکومت ہاتھ نہیں ڈال رہی کیونکہ اسےعوامی ردعمل کا خوف ہے۔ خود پرقاتلانہ حملہ کے بعد عمران خان نراش ہیں، اسی دوران انہوں نے کے پی اور پنجاب اسمبلیاں توڑ دی ہیں اور دونوں صوبوں میں گورنرز کی جانب سے انتخابات کیلئے تاریخیں دینے کا انتظار ہے جو ختم نہیں ہو رہا اور گزشتہ دنوں کا واقعہ ان قوتوں کو مزید طاقتور کرے گا جو انتخابات میں زیادہ سے زیادہ دیر کرنا چاہتی ہیں۔ کم و بیش 4 ماہ سے عمران خان کا عوام سے پہلے کی طرح رابطہ قائم نہیں ہے، ویڈیو بیانات اور لوگوں کےدرمیان کھڑے ہوکر رابطوں میں بڑا فرق ہے، ویڈیو بیانات محدود حد کا ہی جوش و خروش پیدا کرتے ہیں۔ عمران خان کیلئے یہ طویل گوشہ نشینی تکلیف دہ ہے، یقیناً وہ اس حالت جبر سے باہر نکلنا چاہتہ ہیں لیکن حکومت آج بھی میدان میں ایک تندرست عمران خان کے امیج سے ڈر رہی ہے، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حکومت جلد عمران خان کو انتخابی پراسس سے باہرکر دے گی تو بہتوں کیلئے یہ تکلیف دہ ہوگا کیونکہ وہ ایک طلسماتی شخصیت ہے جو اچھے اندازمیں مارکیٹ نہیں ہو سکا۔ عمران خان کی سیاسی زندگی مشکل حالات سے ٹکرانے اور جیتنے کا نام ہے، ہم میں سے اکثریت زندگی کے کئی مرحلوں پرپلے بوائے رہ چکے ہیں، اس کے بعد کی زندگی میں اکثر مقامات پر انہیں مشکلات کا سامنا رہا، انہی مشکلات کی وجہ سے ان کی ازدواجی زندگی متاثرہوئی، 18ء میں اقتدار میں آنے کے وقت وہ رموز ہائے حکومت سے بالعموم ناواقف تھے اورانہی وجوہات کی بنا پروہ اہم مواقع پر درست ساتھیوں کا انتخاب نہ کرسکے اور کئی دیگر وجوہات کی بنا پر وہ اپنی حکومت میں وہ کچھ نہ کر پائے جو وہ کرنا چاہتے تھے، لوگ عمران کو آج مشکلات کے باوجود پاکستان کا خیرخواہ مانتےہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں بھی عمران خان کو Uncut Diamond لکھا جاتا رہا ہے کیونکہمتعدد پہلو شخصیت سے پاکستان کیلئے بڑے کام لئے جا سکتے تھے۔ وہ شہرت کی بلندی پر ورلڈ کپ جیتنے کے بعد پہنچ چکے تھے، افغان مہاجرین کے معاملات دنیا کے سامنے اٹھا کر وہ پشتون قبائل میں باالخصوص ایک قائدانہ حیثیت اختیار کرچکے تھے، مختلف مواقع پر حکمرانوں سے اختلاف کرتے ہوئے وہ اور ان کی جماعت عوام میں مقبول ہوئے اور اس وجہ سے ان کو اقتدار ملا، ریاست اس شخصیت کو قومی حیثیت میں پروموٹ نہ کرسکی، حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس کے ٹیلنٹ اور اوصاف کو یکجا کرکے پاکستان کیلئے نایاب تحفہ تیار کیا جاتا۔ عمران خان میں بھی ہماری طرح بے شمار کمزوریاں ہیں مگر ان کا پاکستانی سیاست میں موجود رہنا ملک کی ایک بھاری اکثریت کیلئے خوش آئند ہوگا۔ آج کل پاکستانی میڈیامیں ایک رائونڈ ٹیبل سیاسی ماحول پیدا کرنے پر بھی بات ہو رہی ہے جو خوش آئند ہے مگر اس سے قبل دو صوبوں میں انتخابات ہو جانے سے ملک میں استحکام پیدا ہوگا۔ پشاور حملہ میں متاثرین خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کے پیغامات کے ساتھ توقع ہے مرکزی حکومت بھرپور مالی تعاون کرے گی، حکومت کو ایک قومی فنڈ کا اعلان کر دینا چاہئے تھا، بہت لوگوں کو عجیب لگا ہوگا کہ ایسا اعلان نہیں ہوا ملک ایک بہت بڑے حادثہ کا شکار ہوا ہے۔ زخموں پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے، سیاست ایک بہت بڑی تعداد کیلئے عمران خان کا مساوات، سماجی انصاف اور مستحکم پاکستان کا پیغام ہے جس کو لوگ آگے بڑھانے کیلئے کوشاں رہیں گے۔
یورپ سے سے مزید