• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم نے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سب سر جوڑ کر بیٹھیں۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مل جل کر مقابلہ کریں۔ بظاہر ایک اچھاقدم ہے۔

حالات بہت زیادہ سنگین ہو چکے ہیں۔ اقتصادی طور پر پاکستان کو خطرناک پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔ قومی کرنسی ڈالر کے سامنے ایسے عجز کا شکار کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ایک ڈالر 271روپے کا ہوچکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ کمی کا شکار ہیں۔ ایک ایک دن میں 65کروڑ ڈالر کم ہورہے ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں ہورہا کہ یہ خطیر رقم کس مد میں ادا کی گئی ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا وفد جائزے پر ملک میں موجود ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے ہماری حالت زار دیکھ رہا ہے۔ اپنے کانوں سے ہمارے الزامات جوابی الزامات سن رہا ہے۔ ان کے متعلقہ سفارت خانوں کے لوگ بھی ان سے مل رہے ہوں گے۔ ان کو حقیقی حالات سے آگاہ کررہے ہوں گے۔

ہمارے خیال میں کل جماعتی کانفرنس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ 13جماعتیں تو حکومت وقت میں شامل ہیں۔ اپریل سے لے کر اب تک ان کی اجتماعی دانش اقتصادی۔ سیاسی۔ سماجی مسائل کا کوئی حل تلاش نہیں کرسکی ہے۔ ایسی پالیسیاں وضع نہیں کرسکی جن سے ڈالر کی پرواز رُک سکتی۔ ضروری اشیا کی قیمتیں قابو میں آسکتیں۔ بعض اوقات تو سنجیدہ حلقے یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اقتصادی ۔ سیاسی۔ سماجی بحران کو ختم کرنا اس مخلوط حکومت کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے بلکہ یہ بحران اسے راس آرہا ہے۔ اور وہ اس سے ٹھیک ٹھیک فائدے اٹھارہی ہے۔ اس لئے بحران جتنا گہرا اور وسیع ہوتا ہے۔ اتنا ہی یہ حکومت اپنے مخالفین پر سختیاں زیادہ کردیتی ہے۔ پی ٹی آئی جو اس حکومت میں شامل نہیں ہے اس کو حکومت وقت اقتصادی بحران۔ اور دہشت گردی کے پھیلائو کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ تو ان کے مل بیٹھنے کا تو کوئی فائدہ ہو ہی نہیں سکتا۔واہگہ سے گوادر تک لوگ اگر چہ نسلی ۔ قبائلی۔ لسانی اور سیاسی طور پر الگ الگ ہیں۔ لیکن یہ احساس مشترکہ ہے کہ حکمراں نا اہل ہیں۔ بحران ہمارا مقدر ہے۔ہم اس سے جلدی نکل نہیں پائیں گے۔

ہم تو بار بار یہ عرض کررہے ہیں کہ یونیورسٹیوں۔ تحقیقی اداروں اور ماہرین کو آگے آنا چاہئے۔ ہمارے معزز سیاسی قائدین تو بحران پیدا کرتے آئے ہیں۔ بحرانوں پر قابو پانے کی روایت ان سے کبھی وابستہ نہیں رہی ہے۔ اس لئے وزیر اعظم شہباز شریف اس سنگین بحرانی صورت حال سے واقعی نکلنا چاہتے ہیں تو معیشت اور سیکورٹی ماہرین کی کانفرنسیں بلائیں۔ یہ ماہرین غیر جانبداری سے مسائل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس بحران کے اسباب جانتے ہیں۔ وہ صائب اور درست مشورہ دے سکتے ہیں۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع ہے۔ آزادانہ ہے۔ غیر جانبدارانہ ہے۔ وہ اپنے طور پر نجات کے راستے بتاتے بھی رہتے ہیں۔انہیں ٹاک شوز میں بلایا جاتا ہے۔ مگر وہاں وقت کم ہوتا ہے اور ان کی پوری بات نہیں سنی جاتی ۔ یہاں انہیں کھل کر بات کرنے دی جائے۔ دوسری قومیں اس سے زیادہ شدت کے معاملات کاسامنا کرچکی ہیں۔ وہاں عوام اور حکومت مل کر انحطاط سے نبرد آزما ہوئے۔

پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ ہماری زرخیز اراضی پہلے پورے جنوبی ایشیا کے لئے غلّہ پیدا کرتی رہی ہے۔ اب ہم اپنے لئے کیوں نہیں کرسکتے۔ ہماری مائیں بہنیں۔ دادیاں۔ نانیاں تو یہی افسوس کرتی ہیں کہ ایک سونا اگلنے والی دھرتی۔ پیاز۔ ٹماٹر۔ اناج دوسرے ملکوں سے منگوارہی ہے۔ تاریخ نے شرم سے سر جھکایا ہوا ہے۔ جغرافیہ تڑپ رہا ہے۔ ہمارے قدرتی وسائل بے پایاں ہیں۔

ملکی غیر ملکی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ بگڑے ہوئے حالات ایک سے ڈیڑھ سال مزید جاری رہ سکتے ہیں۔ جادو کی چھڑی تو کسی حکمراں کے پاس نہیں ہوتی۔ آج کے گلوبلائزیشن کے دَور میں تنہا کوئی ریاست اپنے مسائل حل نہیں کرسکتی۔ آئی ایم ایف اور ایسے دوسرے اداروں کی مدد حاصل کرنا پڑتی ہے۔ لیکن کلی طور پر ان کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔ ہر ملک کی اصل طاقت اس کے اپنے جفاکش لوگ ہوتے ہیں۔ اس کی حقیقی دولت اس کے اپنے وسائل اپنی زمین ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اکثریت کو حکمرانوں پر اعتماد نہیں ہے۔ اصل تاثر یہ ہے کہ حکمراں صرف سرکاری خزانے کو لوٹتے ہیں۔ اور یہ تاثر خود حکمراں طبقوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرکے پیدا کیا ہے۔

ایسے میں راستہ یہی ہے کہ اساتذہ کرام۔ اقتصادی۔ زرعی ماہرین۔ تحقیقی ادارے۔ یونیورسٹیاں آگے آئیں۔ ان پر عوام کو اب بھی یقین ہے۔ بھروسہ ہے۔ وہ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کو اس لئے ان تعلیمی اداروں میں کئی کئی سال کے لئے داخل کرواتے ہیں۔ یہاں سے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم اگر کسی یونیورسٹی کے کیمپس میں وائس چانسلرز۔ اکنامکس کے اساتذہ۔ چارٹرڈ اکائونٹنٹس۔ کو بلاکر ان سے مشاورت کریں گے ۔ ان کی تجاویز سنیں اور ان پر عمل کریں گے تو عوام کو یقیناً کچھ اُمید ہوگی۔ اس طرح حکمرانوں کا اعتماد بھی بحال ہوسکے گا۔

آئی ایم ایف سے معاہدہ تو جاری رکھنا ہوگا۔ اس کی شرائط بھی تسلیم کرنا ہوں گی۔ اس کے نتیجے میں ہی ہمارے دوست ممالک چین۔ سعودی عرب۔ متحدہ عرب امارات وغیرہ ہماری مدد کرسکیں گے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ غریب عوام پر براہ راست نہ منتقل ہو۔ اس کے لئے اقتصادی ماہرین متبادل راستے تجویز کرسکتے ہیں۔ حکمراں تو آسان راستہ بھی خیال کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف جتنا بوجھ دیتی ہے وہ براہ راست عوام پر اور تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیں۔ خود کوئی احتیاط کریں نہ کفایت شعاری۔ آئی ایم ایف نے بجا طور پر بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے پر زور دیا ہے۔ خرچ کرنے کے ہمارے انداز شاہی ہیں۔ بحران میں بھی کٹوتی نہیں کی جاتی ۔ وفاقی صوبائی کابینہ مختصر کرنا ہوگی۔ حکمرانی آن لائن کی سہولت ہے۔ کروڑوں کے سفری اخراجات کم ہوسکتے ہیں۔

ہماری عاجزانہ تجویر یہی ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کی عیاشی سے گریز کریں۔ کسی پرائیویٹ یونیورسٹی میں معیشت اور سیکورٹی کے ماہرین کی کانفرنس کا انعقاد کریں۔ اس کے اخراجات بھی وہ یونیورسٹی برداشت کرے۔ اس کانفرنس میں جو ٹھوس تجاویز اور لائحہ عمل دیا جائے۔ اس میں فوری اقدامات بھی ہوں گے اور طویل المیعاد منصوبے بھی۔ ان پر عمل کریں۔ تو ہم بحران سے نکل سکیں گے۔ حکمرانوں پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔ اس وقت جو انداز حکمرانی ہے۔ وہ ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جارہا ہے۔ کسی وقت خانہ جنگی بھی شروع ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین