• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز اپنے کارکنوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ جیل بھرو تحریک کی تیاری کریں۔ اپنے ویڈیو لنک خطاب میںان کاکہناتھا کہ پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن ہم پکڑ دھکڑ سے ڈرنے والے نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کون سی قیامت آگئی تھی کہ آج معیشت ڈوبنے کے قریب ہے۔انکا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں، ایک ملک گیر پہیہ جام ہڑتال اور دوسرا جیل بھرو تحریک ۔ پہیہ جام ہڑتال سے معاشی حالات مزید خراب ہونگے لہٰذا حکومت ہتھکنڈوں سے باز نہ آئی تو جیلیں بھر دیں گے ۔ تاہم عمران خان کا یہ کہنا کہ کون سی قیامت آگئی تھی کہ آج معیشت ڈوبنے کے قریب ہے واضح طور پر حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے ورنہ یہ حقیقت کس سے چھپی ہوئی ہے کہ اگر ان کی حکومت نے جسے ریاستی اداروں کا مثالی تعاون حاصل تھا اور جسے ایک مضبوط معیشت سابقہ حکومت سے منتقل ہوئی تھی، اہلیت کا مظاہرہ کیا ہوتاتو ملک کی معاشی حالت آج خطے کے بیشترملکوں سے بہتر ہوتی۔ متعدد سی پیک منصوبے تکمیل کے بعد ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہوتے۔بجلی اور گیس کا کوئی بحران ملک میں نہ ہوتا اور روزگار کے لاکھوں نئے مواقع جنم لے چکے ہوتے لیکن ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب انہوں نے تین سال میں چار وزرائے خزانہ بدلے اور بالآخرملک اس حال میں چھوڑا کہ وہ مکمل طور پر آئی ایم ایف کا دست نگر بن چکا اور عملاً دیوالیہ ہوچکا تھا۔ اپنے پورے دور حکومت میں انکی ساری توجہ اور توانائیاں سیاسی مخالفین کو سراسر جانبدارانہ احتساب کے بل پر جیلوں میں ڈالے رکھنے پر مرتکز رہیں جبکہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے خلاف مقدمات کو مسلسل ٹالنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔ اختلاف رائے کو کچلنے کیلئے انکی حکومت نے میڈیا پر نت نئی پابندیاں عائد کیں ۔ خارجہ تعلقات کے محاذ پر بھی تحریک انصاف کی حکومت بری طرح ناکام رہی۔ چین اور امریکہ سمیت مسلم دوست ملکوں سے بھی اس دور میں راوبط میں سردمہری آئی۔ کون نہیں جانتا کہ ان رویوںکے سبب حالات کے مسلسل ابتر ہوتے چلے جانے سے ان کو بڑی اچھی توقعات کے ساتھ حکومت میں لانے والی طاقتیں مایوس ہوگئیں اور انہوں نے ان کی سرپرستی ترک کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد پارلیمان کے اندر ان کی حکومت اکثریت سے محروم ہوگئی اور اقتدار کی تبدیلی عمل میں آئی۔ اس کے بعد دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کی طرح اگر اس آئینی تبدیلی کو قبول کرکے سابق وزیر اعظم پارلیمان میں اپوزیشن کا کردار ادا کرتے اور آنے والے انتخابات میں بہتر کامیابی کے لیے اپنی پارٹی کو تیار کرتے تو یقینی طور پر ملک کے حالات بھی بہتر ہوتے اور انکی پارٹی کا سیاسی مستقبل بھی زیادہ محفوظ ہوتا لیکن اسکے بجائے انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا جو دس ماہ کے دوران مختلف شکلیں اختیار کرتے ہوئے اب جیل بھرو تحریک تک آپہنچا ہے جبکہ اس مدت میں نہ تو ان کا امریکی سازش کا بیانیہ درست ثابت ہوا، نہ لانگ مارچ کا مطلوبہ نتیجہ نکلا، نہ آرمی چیف کی تقرری ان کی مرضی کے مطابق ہوئی ، نہ قاتلانہ حملے سے انہیں وہ کچھ مل سکا جو چاہتے تھے لہٰذا جیل بھرو تحریک سے بھی کوئی بڑا فائدہ انہیں حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا جبکہ دہشت گردی کی تازہ لہر کے تناطر میں بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں شریک ہوکر ملک کی سلامتی و استحکام میں مثبت کردار ادا کرنے کا راستہ ان کیلئے کھلا ہوا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ جیل بھرو تحریک کے بجائے وہ ملک کی بقا و سلامتی کی خاطر قومی مفاہمت کی راہ اپنائیںاور حکومت بھی انکے اور انکے ساتھیوں کے خلاف مقدمات کو سیاسی انتقام کے ہر شائبے سے پاک رکھتے ہوئے آئین و قانون کی مکمل پاسداری کے ساتھ عدالتوں میںشفاف اور منصفانہ طور پر ان معاملات کا نمٹایا جانا یقینی بنائے۔

تازہ ترین