• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فاٹا اصلاحات کمیٹی کی جانب سے وطن عزیزکے پسماندہ شمالی قبائلی علاقوں کو سماجی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کے لیے حتمی سفارشات کا مرتب کرلیا جانا ایک ایسی اہم ضرورت کی تکمیل ہے جو قومی معاملات کے ذمہ داروں پر عشروں سے قرض تھی۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ نومبر میں مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیزکی سربراہی میں قائم کی جانے والی یہ کمیٹی جس کے دیگر ارکان میں مشیر برائے قومی سلامتی ، وفاقی وزیر قانون اور وفاقی وزیر برائے سرحدی علاقہ جات شامل ہیں،اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کیا جانا ہی مسئلے کا حل ہے تاہم اس سے پہلے ضروری ہے کہ پانچ سال کی عبوری مدت کے اندر ان علاقوں میں سیاسی، انتظامی، عدالتی اور سیکوریٹی اصلاحات مکمل کی جائیں۔۔قیام پاکستان کے بعد اگرچہ شمالی قبائلی علاقوں کے مخصوص حالات کی بناء پر کچھ عرصے کے لیے ضروری تھا کہ یہاں ان کا اپنا نظام جاری رہنے دیا جائے تاہم ایک مناسب مدت کے بعد انہیں بھی ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کے مساوی لانے کے لیے مطلوب اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں تھے۔ایسا نہ ہونے کا بنیادی سبب گزشتہ تیس برسوں میں اس پورے علاقے کا افغانستان میں مسلسل جنگ سے گہرے طور پر متاثر ہونا ہے جس کی بناء پرفاٹا کے لوگوں نے اس پوری مدت میں آگ اور خون کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ لہٰذا اب امن وامان کی بڑی حد تک بحالی کے بعد ضروری ہے کہ اس آفت رسیدہ علاقے کے باسیوں کو بھی ملک کے دیگر علاقوں کی طرح تمام بنیادی حقوق اور سہولتیں فراہم کی جائیں۔فاٹا میں امن وامان کی بحالی میں فوج نے جو کلیدی کردار ادا کیا ہے، اس کی بناء پر علاقے کے مستقبل کے حوالے سے عسکری قیادت سے بھرپور مشاورت لازمی تھی جس کا پورا اہتمام کیا گیا اور یوں متفقہ سفارشات کی تیاری عمل میں آئی۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ان تجاویز پر جلد از جلد عمل شروع ہوجائے گا تاکہ فاٹا میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوسکے۔
تازہ ترین