• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علیشاہ پشاورکا ایک خواجہ سرا جوخود توگولیاں کھا کے ابدی نیند سوگیا لیکن ہمیں ــ"فرشتوں"ـــ کے اس معاشرے میں زندہ درگورچھوڑگیا جہاں کا ہر"مرد اورعورت گناہ سے پاک ،صاف اورعزت دارہے" کہ ان کے ساتھ ایک خواجہ سرا کو وارڈ میں علاج کے لئے رکھنا جرم تھا اوراگراسے ان کے ساتھ وارڈ میں رکھا جاتاتوان کی عزت پرحرف آتا۔ جس اسپتال میں یہ سب کچھ ہوا اس سے پچاس قدم کے فاصلے پرقصہ خوانی ،خیبربازاراورجنگی محلہ ہے جہاں علوم اسلامیہ کے کتابوں کی تمام بڑی دکانیں واقع ہیں جویہاں سے پورے خیبرپختونخوا، فاٹا بلکہ افغانستان میں بھی بھیجی جاتی ہیں۔
یہاں بکنے والی کتابوں میں خدا کی رضا اورخوشی کے واقعات کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ اگرکسی انسان کے ساتھ امتیاز اور تذلیل پرمبنی رویہ اختیارکیا جائے تووہی خدا پھراس کے بدلے میں ایسا کرنے والے کے ساتھ کیا کرے گا۔ یہی سے خریدی ہوئی ایک کتاب میں خود مجھے یہ پڑھنے کا موقع ملا کہ جب قیامت کے دن اللہ تعالی اپنا دربار سجائیں گے اورلوگوں کے جنت اوردوزخ میں جانے کے فیصلے ہوں گے تواس میں یہ بھی درج تھا کہ قیامت کے دن ایک بڑے پارساآدمی کو جب جنت میں لے جایا جائے گا تواس دوران خود خدا کی جانب سے حکم ہوگا کہ اسے کہاں لے جایا جارہا ہے توفرشتے پوچھیں گے کہ ان کا حساب کردیا گیا ہے یہ جنت میں جانے کے مستحق ہیں؟ جس پرخدا وند کریم خود جلال میں آکرفرمائیںگے کہ اسے واپس کروکیونکہ جب میں بیمارپڑا تھا تویہ میری تیمارداری کے لئے نہیں آیا تھا فرشتے پوچھیں گے کہ آپ توبیماریوں سے مبرا تھے تواللہ تعالیٰ فرمائیںگے کہ اس کا فلاں رشتے داریا ہمسایہ بیمارتھا اوراس نے اس کی تیمارداری نہیں کی تھی یہی والا معاملہ وہ اس شخص کے ساتھ بھی کرینگے کہ جس نے غریب کو کھانا دینے سے انکارکیا ہوگااللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں بھوکا تھا اس کے گھرگیا تھا اس نے مجھے کھانا نہیں دیا تھا اوراسی طرح ایک فقیرکواپنے آپ سے تشبیہ دے کرجنت میں جانے والے کو واپس جہنم میں بھیج دینگے۔ وہ ایسا کرتے رہیں گے اورہراس شخص کو جنت میں جانے سے روکیں گے جواسے خوش کرتے کرتے انسانوں کو بھول گیا ہوگا۔اپنے آپ کو پاکیزہ اوردوسروں کو جہنمی گناہگارسمجھنے والے ہم جیسوں کو یہ بھی پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس بات پربھی شاید بہت غضب ناک ہوں کہ کسی کو اپنے سے کم ترسمجھا جائے ہم میں سے ہراس فردجس کی پیشانی پر تقوی کے باعث غرورکی لکیریں نمایاں نظرآتی ہوں کویہ بھی یاد ہوگا کہ ایک دن خدائےذوالجلال نے کلیم اللہ کا لقب پانے والے پیغمبرموسی علیہ السلام سے کہا کہ جائواوردنیا میں اپنے سے کمترتلاش کرکے میرے پاس واپس آئوپھر موسی علیہ السلام دنیا میں واپس گئے اوردنیا میں کچھ وقت گزارنے کے بعد واپس خدا کے پاس گئے کہ وہ کسی کواپنے سے کمترنہ پاسکے توخدا نے جواب دیا کہ اگرآج تم ایک بکری کے بچے کو بھی اپنے سے کمترسمجھ کے میرے پاس آتے تومیں آپ کو پیغمبری کے منصب سے محروم کردیتا۔
ان ساری حکایات اورکتابوں سے پُرمعاشرے میں پھرجب سب یہ جانتے ہیں اورایک دوسرے کو اس کی تبلیغ بھی کرتے نہیں تھکتے ، علیشاہ کا صرف اس وجہ سے مرجانا کہ وہ خواجہ سرا تھا اس لئے وہ مردوں اورعورتوں دونوں کے وارڈ میں رہنے کا حقدار نہیں تھا کیا اس کے بعد بھی اس معاشرے میں اس مردہ ضمیرکے ساتھ ہمیں زندہ رہنے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ کیا ہندووں سے ذات پات اوردیگرباتوں پراس لئے کراہت نہیں رکھی جاتی کہ وہاں ذات پات اوراونچ نیچ ہے ایسے میں ہندوبرہمنوں کے سب سے کمترذات شودروں کو کچلنے میں اورعلیشاہ کو اپنے ساتھ وارڈ میں نہ چھوڑنے میں کیا فرق ہے؟۔کیا اس معاشرے میں موجود ان لوگوں کی جانب سے اس بے حسی پرخاموش رہنا ان کے مردہ ضمیرہونے کا ثبوت نہیں ؟جومغربی سوسائٹی کی توا س لئے تعریف کرتے ہیں کہ وہاں پرکتوں کی بھی قدرکی جاتی ہے۔
کیا اسپتالوں کو ترقی دینا صرف مشینوں اورڈاکٹروں کی تعداد بڑھانے کا نام ہے کیا اس اتنے بڑے قتل کے بعدجوقاتل کی گولی سے پہلے اس رویئے سے ہوا جواسپتال میں روا رکھا گیا کے بعد بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جاہلوں کے اس معاشرے کی حکومت پہلے کی کسی حکومت سے مختلف ہے انقلاب اورتبدیلی کیا صرف مشینوں میں آتی ہے یا رویوں میں بھی ہونی چاہئے۔کیا ہم میں سے کسی نے یہ سوچا کہ اپنے نصاب میں اب ان باتوں کو شامل کیا جائے جواس قسم کے نازک مسائل سے متعلق ہوں جب اس معاشرے کے ہرفرد اورلوگوں کی جانیںبچانے کے دھندے سے وابستہ مسیحاوں کو بھی یہ درس دیا جائے کہ جسے بھی بیماراورزخمی حالت میں ان کے پاس لایا جائے ان کی جنس اور مذہب جاننے سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کوبچایا جائے۔ کیا کوئی حکومت اب کوئی کل جماعتی کانفرنس اس پر بھی بلائے گی کہ معاشرے کو اس قسم کے رویوں سے روکا جاسکے۔ اس معاشرے میں جہاں لوگوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ تیسری جنس کا ایک بچہ خود ان کے ہاں بھی جنم لے سکتا ہے کیا کوئی حکومت تمام علما اورکتابوں کوایک میز پررکھ کر اجتہاد کرواسکے گی کہ اب کے بعد ایسا نہیں ہونا چاہئے اورانسان کوانسان کے طورپرہی دیکھنا چاہئے۔ ملک کی بڑی مذہبی جماعتیں اس وقت وزیراعظم کوبچانے، وزیراعظم کوگرانے اورملامنصورکے جنازے پڑھنے میں تومصروف ہیں لیکن کیا ان میں سے کبھی کوئی اس معاملے پرلوگوں کی رہنمائی کرنے کو تیارہوگا کہ آج کے بعد علیشاہ جیسا کوئی انسان امتیازی رویے کی نذرہوا تووہ کیا کرینگے، لوگوں کی رہنمائی کے فرض کا بیڑا اٹھانے والی بڑی جماعت تحریک انصاف پرسب سے زیادہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں لیڈکرے اورکچھ ایسا کرے کہ معاشرے کو سبق مل سکے کہ بس بہت ہوچکی، ورنہ علیشاہ کے بعد کسی اورکے ساتھ ایسا ہوا توپھرشاید قیامت کے دن خداوند تعالیٰ خود اس کا حساب کرلیں گے اورکسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔

.
تازہ ترین