• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم لاہور کیلئے قافلے کی صورت ہنستے باتیں کرتے نکلے تھے۔ ابھی کلر کہار تک پہنچے تھے کہ تابش کی آواز آئی،’’ امجد اسلام امجد‘‘ نہیں رہے ساری لطف بیانی ختم اور اب امجد کی باتیں، اس کی نظمیں، لطیفے اور سب سے بڑھ کر اس کی شوگر، جس کے باعث وہ دومرتبہ فرش پر گرچکا تھا۔ یہ بھی یاد کیا کہ کس طرح بیٹے کی ضدپوری کرنے کیلئے عمرہ کرنے گیا۔ اُسی طرح ہنستے ہوئے واپس آکے کہنے لگا،’’ کچھ کمزوری محسوس ہورہی ہے‘‘۔ بس اگلی صبح، وہ ہم میں نہیں تھا، افتخار عارف اس کی نظمیں ،میں اس کی غزلوں اور شکیل اس کی ساری شاعری کا تجزیہ کرتا رہا کہ ہم آخر کو لاہور آرٹس کونسل پہنچے۔ وہاں سارے شہروں سے آئے، ادیبوں کے چہرے پہ ایک ہی تاثر تھا اور ہر ایک کہہ رہاتھا، ’’ ہائے امجد آج کانفرنس کے افتتاح میں ہم سب بس تیری باتیں ہی کریں گے‘‘ اور احمد شاہ نے تینوں دن میں سچ کردکھایا کہ ہم ہر سیشن میں امجد کو یاد کرتے رہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ احمد شاہ کیا لاہور آگیا ہے۔ ویسے تو اس کا ارادہ پورے پاکستان میں ادبی کانفرنسیں منعقد کرنے کا ہے۔ اور اب پہلا قرعہ، لاہور کے نام نکلا ہے۔ لاہور آج سے بیس برس پہلے تک ادیبوں کی باتوں، لارنس گارڈن کے درختوں اور کتابوں کی دکانوں کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ جوادیب بھی لاہور آتا، وہ پاک ٹی ہائوس ضرور آتا کہ یوں سارے خاص ادیبوں سے ملاقات ہوجائے گی۔مگر لاہور کی سڑکیں پر رش بڑھ گیا اورکتابوں کے شوروم کم سے کم ہوتے گئے۔ فیروز سنز جل گیا۔ بس بچا اور بستا رہا تو سنگ ِمیل۔

احمد شاہ نے لاہور آرٹس کونسل میں 3روز میں30 فنکشن اور کتابوں کی نمائش، موسیقی کے جیالوں کی دھمال اور کتابوں کے رسیا لوگوں کیلئے نمائش، جہاں کہیں بھی آپ پہنچے وہاں ہر راہداری ، ہر ہال اور ہر سبزہ زار پہ نوجوانوں کا ہجوم ، سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع پر، نوجوان دیواروں کے ساتھ لگے اور مباحثوں کوسن رہے تھے۔ وہ مشاعرہ جو ڈیڑھ گھنٹے چلنا تھا، وہ رات بارہ بجے تک افتخار عارف اور صدیقی صاحب کی صدارت میں گونجتا رہا اور نوجوان اب بھی جانے کے موڈ میں نہیں تھے ۔ موضوعات کے تنوع نے بھی اور ساری زبانوں کے علاوہ پاکستان کی معاشی صورت حال پر سننے والوں کی کہیں کمی نہیں تھی۔ مگر جب اعلان ہوا کہ ’’ اب باری ہے انور مقصود کی‘‘۔ تو ہال میں ہر فقرے پر ایسی داد اور ایسا سنجیدہ مذاق جس پر نوجوانوں کی ذہنی افتاد کو داد دینی پڑی۔ امجد فہمی سیشن میں عنبر تو پروگرام شروع کرتے ہی روپڑیں، پورے ہال نے امجد کو یاد کیا۔ ابھی آخری شام، لاہور میں گرمی یکدم ایسی ٹھنڈی ہوائوں نے ہم لوگوں کا استقبال کیا کہ مجھ جیسی بوڑھی عورت کو شکیل جاذب نے اپنا مفلر اور انور مقصود نے اپنی شال دی ۔مگرٹھنڈی ہوا نے میرے سارے بدن پہ کپکپی اس لئے بھی طاری کردی کہ ہما میر نے اعلان کیا کہ ’’ اپنی نسوانی اور شعری شناخت کی شاعرہ کشور ناہید کو لائف ٹائم‘‘ ایوارڈ دیا جارہا ہے، اب میری جانب ہر ہاتھ کو خوشی سے پکڑتے ہوئے سردی میں ، میں کانپ رہی تھی۔

احمد شاہ ابدالی کے بعد احمد شاہ، کراچی آرٹس کونسل نے،لاہور کو یا دکرایا کہ یہی وہ شہر ہے جہاں عطا اللہ شاہ بخاری ، فاطمہ جناح، حبیب جالب، شورش کاشمیری اور فیض احمد فیض کو سننے ہر عمر کے لوگ جمع ہوتے تھے۔ بس اب سیاسی شعبدہ بازیوں نے اس شہر کی ہماہمی کو گہنا دیا۔ رات بڑھنے لگی تو سب نے دعائیں دیں احمد شاہ کو کہ یہ تحریک کہ ملک کے سارے جوانوں کو ادب اور تہذیب کی طرف لوٹانے کیلئے گوادر، ملتان، کوئٹہ، پشاور، گلگت اور بے شمار علاقوں میں ادب کی پژمردہ بستیوں کو جگانے اور بہترین ذہنوں کی گفتگو کے ذریعے پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنائیں گے۔

رات کے دوبجے تھے کہ اب پھر ایک آوازسنائی دی کہ ’’ ضیا محی الدین‘‘ کا آپریشن ہورہا ہے۔ پھر وہی سکتہ پھر وہی خوف کہ موت کیا اب دوسرے فقید المثال شخص کو لینے چلی گئی ہے۔ صبح ہوئی تو واجد صاحب کا فون ’’چلا گیا‘‘، اس کا نام ہم میں سے کوئی شخص لینے پر تیار نہ تھا مگر ہم کب قاسمی صاحب، منو بھائی اور فیض صاحب کو جانے دیتے۔ یہ قضا وقدر کا معاملہ بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر وہ آواز جو برطانیہ کے تھیٹر اور فلموں سے آئی تھی، گزشتہ چالیس برسوں سےنسل در نسل یہ سکھا رہی تھی کہ تلفظ کیا ہے، شعر کا انتخاب ہوکہ نثر کا ۔ اس کی ادائیگی میں چٹکتی کلیوں کی سی تازگی اور والہانہ پن ہو۔ ضیا محی الدین کا ثانی پیدا نہیں ہوسکتا ۔ہم دو سو سال سے غالب کا تو کبھی فیض کا ثانی تو کبھی ناصر کاظمی کا ثانی تلاش کرتےکرتے، ذہنی اور معاشی طور پر غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ خدا کو کیا احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں کی محنت پسند نہیں آئی کہ قوم ایک اور غم میں ڈوب گئی۔ نہیں خدا کی جانب سے جواب آیا۔ محبت کرو، دل سے ادب تخلیق کرو، تمہارا ساتھ احمد شاہ کے علاوہ، اس کی رحمت بھی دے گی۔

میں ان دونوں کمال فنکاروں کو بخار اور کھانسی کے باوجود ، داد اس لئے دے رہی ہوں کہ شاید ان کی محبت کے طفیل ایک اور ز بر د ست کانفرنس میں کراچی پہنچ کر اپنے دوستوں کے ساتھ، کچھ تازہ کلام ، کچھ تازہ باتیں اور کچھ وہ چہرے دیکھ سکوں، جو ہمارے ادب اور زندگی کے درخشاں ستارے ہیں۔

تازہ ترین