• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق چیف آف آرمی اسٹاف کے ایک اینکر کے ساتھ انٹرویو ، جسے اینکر نے ایک مضمون کی صورت میں بیان کیا،سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہےکہ حکومت کی تبدیلی کامنصوبہ ایک مقامی سازش تھی جسے کچھ بیرونی طاقتوں کی اشیرباد بھی حاصل تھی ۔ اسے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عملی شکل دی گئی ۔ اس کے لئے دولت اور مراعات کے خزانے لٹائے گئے ۔ تاہم یہ ہماری تاریخ کا ایک شرمناک باب رہے گا کہ جن افراد کا ملک چلانے میں کوئی کردار نہیں ، وہ ان گزرے عشروں میں حکم چلاتے رہے ہیں جس کے باعث ملک جامد سوچ کے نرغے میں پھنس کر زوال کے گڑھے میں گرتا چلا جارہا ہے ۔

حکومت کی تبدیلی کا تجربہ بذات خود کوئی انفرادی کارروائی نہیں تھی ۔ یہ تو اس گھنائونی سوچ کے اثرات ہیں جس کے تباہ کن نتائج کا ہمیں سامنا ہے۔ افغانستان کے بارے میں حال ہی میں ماسکو میں منعقد ہونے والی علاقائی ممالک کی سیکورٹی کونسلوں کے سیکرٹریوں کی کثیرالجہتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ممکنہ طور پر مستقبل میں ہمارے طرز عمل کی وضاحت کرے گا۔ اس کے تباہ کن اثرات کا ہمیں مرحلہ وار سامنا ہے۔ کانفرنس میں میزبان روس کے ساتھ چین، ایران، بھارت، تاجکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغزستان اور ازبکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا پاکستان ’’افغانستان سے متعلق تمام مثبت اجلاسوں میں شرکت جاری رکھے گا‘‘لیکن کانفرنس میں بھارت کی موجودگی کی وجہ سے اس نے شرکت سے انکار کیا تھا۔ یہ جواز اس فیصلے کو مزید شرمناک بناتا ہے۔ اس طرح پاکستان خطے کا واحد ملک بن گیا جس نے بات چیت کرنے اور ’’افغانستان کی سرزمین سے پیدا ہونے والے چیلنجوں اور خطرات کے مناسب حل تلاش کرنے ‘‘کے لئے ہونے والے اجتماع میں شرکت سے گریز کیا ۔ حالانکہ یہ موضوع اس کی سیکورٹی ، اور مغربی سرحد سے اٹھنے والے دہشت گردی کے خطرے کو کچلنے کے لئے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ کانفرنس سے اپنے خطاب میں صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ اگر چہ یوکرین سمیت دیگر تنازعات اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن ان سے افغانستان کے حالات کی اہمیت کم نہیں ہوتی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم افغانستان کی صورتحال پر پریشان ہیں کہ بیرونی قوتیں اسے اپنے انفراسٹرکچر کی توسیع یا تعمیر کیلئے استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ ممالک بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے ایسا کریں گے لیکن وہ ایسا کچھ نہیں کر رہے جو انسداد دہشت گردی کیلئے ضروری ہے۔‘‘ یہ ایسی کوششوں کے حوالے سے ایک سنگین انتباہ ہے ۔ بظاہر امریکہ اور مغربی دنیا افغانستان کی صورتحال پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک کون ہیں اوروہ کیوں اس آگ پر تیل گرانے میں مصروف ہیں جس کے شعلوں نے اس خطے کو چار دہائیوں تک جلایا تھا؟

اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی کوششیں وقت کے ساتھ شروع ہوسکتی ہیں، لیکن کیا پاکستان دوبارہ اس تنازعے میں شراکت دار اور فعال سہولت کار بن جائے گا؟ اسی امکان کا تدارک کرنے، اپنے مفاد کا تحفظ کرنے، اور اپنا مؤقف پرزور طریقے سے پیش کرنے کیلئے پاکستان کو اس کانفرنس میں شرکت کرنا چاہئے تھی ۔اس کی بجائے اس نے گریز کا راستہ اختیار کیا۔ کیا اس کی وجہ اپنی دکھائی دینے والی مجرمانہ غفلت کی پردہ پوشی کی کوشش تھی یا اس سے اُس دبائو کو برداشت نہ کرنے کی سکت کا اظہار ہوتا تھا جو ان پر خان کے دور کی پالیسیاں تبدیل کرنے کیلئے ڈالا گیا ہے؟

اس پیش رفت کو بھارت میں روس کے سفیر ، ڈینس علیپوف (Denis Alipov) سے منسوب بیان کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے کہ ماسکو پاکستان سے یوکرین کو ہتھیاروں کی منتقلی کو ’’قریب سے مانیٹرکررہا ہے۔‘‘اُنھوں نے یہ بیان نئی دہلی میں ہونے والی انڈیا روس کانفرنس کے موقع پر دیا تھا، جب کہ اس وقت، جنوری 2023ء میں یوکرین میں ہتھیاروں کی بھاری کھیپ پہنچی تھی۔ ظاہرہے کہ اس کے پیچھے امریکی منشا ہی ہوگی ۔اسے داخلی اقتصادی بحران کا شکار ’’دیوالیہ ‘‘پاکستان کی کچھ منافع کمانے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا ۔ خان کی آئینی حکومت کے خاتمے کے مضمرات وقت گزرنے کے ساتھ سنگین تر ہوتے جارہے ہیں کیونکہ حکومت چلانے کا دکھاوا کرنے والے کچھ اداکار تباہی کی اس منہ زور لہر کا رُخ پھیرنے سے قاصر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان فریب خوردہ حالات کے ہنگامہ خیز دھارے میں بے دست وپابہتے ہوئے ترقی پسند اور فلاحی ریاست کے بنیادی اصولوں سے مزید دور ہوتا جارہا ہے، جس کی وضاحت خود قائد نے 1947 میں پہلی دستور ساز اسمبلی میں کی تھی۔ ارادے کا اعلان غیر رسمی طور پر کسی دور دراز اور نامعلوم مقام پر دفن کیا جاتا ہے جس تک نہ تو پہنچا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسکی تحقیقات ہو سکتی ہیں۔

اس عظیم سانحہ کی جڑیں اس غلط پالیسی میں پیوست ہیں جس کے تحت ان کو غیر فعال، بلکہ ختم کیا جا رہا ہے جو صاحب دل تھے اور جو ریاست کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکتے تھے۔ اس کی بجائے سوچ سمجھ سے عاری ان افراد کے ہاتھ میں زمامِ اختیار تھما دی گئی جن کا بطور عوامی رہنما نہ کوئی کردار ہے اور نہ ہی وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جائے حیرت یہ ہے کہ ہم ابھی تک ان پر تکیہ کئے ہوئے ہیں اگرچہ یہ گورننس اور اس سے ملتی جلتی کسی بھی چیز سے عاری ہیں ۔ انھیں ایک ہی کام آتا ہے۔ بس کشکول دنیا کی طرف بڑھا دیں تا کہ خیرات مانگ کر ایک دن اور گزر جائے۔ نہ کوئی شرم ہے، نہ حیا، اور نہ ہی اس تعفن زدہ خبط سے کوئی راہ نجات ہمارے سامنے ہے۔ افسوس، جب ہم ذلت آمیز ماضی کے گڑھے میں چھلانگ لگا چکے ہیں ، آنے والا کل ایک مختلف دن بن کر ہماری آنکھوں میں جھانک رہا ہے۔ اس کے مہیب حقائق اس سے کہیں زیادہ سفاک ہیں جو ہم نے گزرے کل برداشت کئے تھے۔

تازہ ترین