بولٹن کی ڈائری ۔۔۔۔۔ ابرار حسین ان اطلاعات کے مطابق کہ شاید چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو گرفتار کر لیا جائے گا جس سے اوورسیز پاکستانی کشمیری کمیونٹی میں شدید بے چینی دیکھنے میں آرہی ہے۔ برطانیہ سمیت اوورسیز کے کئی ممالک میں ایک تو یہ کہ پی ٹی آئی پاکستان کا نیٹ ورک موجودہے بلکہ ان کی تمام تنظیمیں خاصی فعال ہیں پھر بالخصوص برطانیہ میں آزاد کشمیر کے باشندوں کی تعداد 16 سترہ لاکھ کے قریب ہےجن کی بھاری اکثریت جو پہلےپاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ تھی اور اب بلامبالغہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے پی ٹی آئی میں جانے سے قابل ذکر تعداد عمران خان کی حمایت یافتہ ہو چکی ہے۔اس وقت نارتھ ویسٹ بولٹن مانچسٹر سے لے کر لندن تک پی ٹی آئی پاکستان اور کشمیر فعال جماعت بن چکی ہے پھر عمران خان کی اپنی کرشمہ ساز شخصیت کا خاصا اثر ہے کہ سیاسی مبصرین کے خیال میں اگر پی ڈی ایم کی حکومت نے خود عمران خان کو حراست میں لینے کی کوشش کی تو خاصا امکان ہے کہ اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میںبالخصوص برطانیہ میں خاصاردعمل ظاہر ہو سکتا ہے۔ اوراگر ایسا ہی ہوا توپھر مانچسٹر،گلاسگو اور بریڈفورڈ کے ذیلی قونصلیٹس کے علاوہ لندن میں پاکستانی سفارتی مشن کے باہر مظاہروں کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ پی ٹی آئی کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ یہ فی الفور بڑی تعداد میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ ہماری کمیونٹی کی کئی چیدہ چیدہ شخصیات سے بات چیت ہوئی ہے جن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پی ٹی آئی کے لوگوں پر مقدمے قائم کرکے ان کی بلاجواز گرفتاریاں کی جارہی ہیں لوگ مشتعل ہیں کہ ڈاکٹروں نے چیئرمین عمران خان کوچلنے پھرنے سے روکا ہے مگر انہیں پھر بھی عدالتوں میں بلایا جا رہا ہے۔ کئی احباب کا برملا کہنا تھا کہ وہ امپورٹڈ حکومت کے دستور سے انحراف کو ہرگز قبول نہیں کریں گے اور چیئرمین عمران خان کے بیانیہ سے سو فیصد متفق ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر دستور کی پامالیوں میں پی ڈی ایم کا کلیدی معاون ہے۔ اتحادیوں سے سیاسی انتقام اور سیاسی آمریت کو پروان چڑھایا جارہا ہے اور یہ کہ بیرونی ممالک میںبسنے والے پاکستانی کشمیری عمران خان کے شانہ بشانہ لاقانونیت جمہوری اقدار کی پامالی، معاشی تباہی کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ نئے فنانس بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے متعدد شخصیات کا کہنا تھا کہ اس سے ملک میں مہنگائی کا مزید طوفان آئے گا جس سے عام لوگ متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر نے فنانس بل کے آرڈیننس پر دستخط نہ کرکے احسن اقدام اٹھایا ہے۔ ان احباب نے یہ یادہانی بھی کرائی کہ عمران خان کے دور حکومت میں معاشی اشاریئے مثبت تھے ملک کی معاشی ترقی بہتری کی طرف رواںدواں تھی، ترسیل زر ، زراعت، صنعتوں اور روزگار میں خاطرخواہ اضافہ ہو رہا تھا باہر سے سرمایہ کاری بھی آرہی تھی، بھوکے کو کھانا مل رہا تھا ، لنگر خانے بھی کھلے ہوتے تھے جن کے پاس سونے کیلئے چھت نہیں تھی ان کیلئے پناہ گاہیںبھی موجود تھیں جس سے لوگوں کا اعتماد بڑھ رہا تھا لیکن اب خود وزیر دفاع یہ اقرار کر رہا ہے کہ ملک تو عملی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ایسے میں مریم نواز کو جو قوتیںلانچ کر رہی ہیں ان کے ذہنی صلاحیتوں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ کئی سیاسی لوگوںنے استفسار کیا ہے کہ محترمہ کی ماسوائے نواز شریف کی صاحبزادی کے اور کیا کوالیفیکشن ہے جبکہ آزاد صحافت کے دعویدار بھی اس موقع پر بری طرح ایکسپوز ہوئے ہیں۔ اصل زرد صحافت ہی ہے کہ عدالتوں سے سزا یافتہ اور ملکی خزانے سے کھلواڑ کرنے والے خاندانوں کو پھر سے مسند اقتدارپر بٹھایا جا رہا ہے جوکہ ملک اور قوم کے ساتھ کھلا مذاق ہے اور عمران خان جیسا شخص زرد صحافت کے علمبرداروںکے ناز نخرے نہیںاٹھاتا تھا اس لئے ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جوپھر انہی آزمائے ہوئے لوگوں کو ہیروز کے طور پر پیش کر رہا ہے مگر اوورسیزپاکستانی کشمیری ایسے زرد صحافت کے علمبرداروںسے پاکستانی عوام کو خبردارکرنے کا عزام کئے ہوئے ہیں۔ اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میری اس زیادتی سے میرا کیا کوئی بگاڑے گا اسے سوچنا چاہئے کہ ایسے معاملات رب کے دربار میں بڑی جلدی سے پہنچ جاتے ہیں اس لئے حکومت کو جوش کے بجائے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اورجو ظلم کے ذریعے عزت چاہتا ہے اللہ کی ذات اسے انصاف کے ذریعے رسوا کر دیتا ہے۔ ظلم کی رات کے بعدسویرا بھی ہوتا ہے اور جو بویا جاتا ہے وہ کاٹنا بھی پڑتا ہے۔ ملک قوم پر چھائے ہوئے مایوسیوں کے بادل چھٹ کر رہیںگے اور نیا سویرا طلوع ہو کر رہے گا۔