وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور سیکرٹری وزرات خارجہ اعزاز چوہدری نے گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں برائے امور خارجہ اور امور دفاع کو خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اہم بریفنگ دی جس سے یہ خوش آئند حقیقت نمایاں ہے کہ پاکستانی قیادت نے عشروں سے جاری امریکی مفادات کے تابع پالیسیوں پر کاربند رہنے کے بجائے خالص قومی مفادات کی بنیاد پر فیصلوں کا عزم کرلیا ہے۔سینیٹ کی کمیٹیوں کو بتایا گیا کہ پاکستان نے امریکہ کو دوٹوک الفاظ میں باور کرادیا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن پاکستان اپنے جوہری پروگرام پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گا کیونکہ یہ پاکستان کی سا لمیت اور سلامتی کا معاملہ ہے۔ کمیٹیوں کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان نے امریکہ پر واضح کردیا ہے کہ اس کی پالیسیوں سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑرہا ہے اور اس سے عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔ سینیٹ کی دفاع اور خارجہ امور کی مجالس قائمہ نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کی خودمختاری سے انحراف پر امریکہ کے ساتھ تعاون کی پالیسی پر نظر ثانی اور نئی شرائط کار کی تیاری کے لیے کام شروع کردیا ہے۔ اجلاس میں دونوں وزارتوں کے اعلیٰ حکام نے اراکین کو امریکہ کی جانب سے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے لیے سبسڈی سے نکار، بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے اور پاک امریکہ تعلقات پرا س صورت حال کے اثرات پر روشنی ڈالی۔قائمہ کمیٹیوں کو بتایا گیا کہ ایف سولہ طیاروں کی ڈیل کا باب بند ہوچکا ہے، امریکہ سے تعلقات کشیدہ ہیں ، امریکہ کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے جبکہ ہماری چین سے دوستی ہے ۔ اس موقع پر مشیر برائے امور خارجہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کسی صورت امریکہ کے لیے اپنی آزادی و خود مختاری اور قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر پاکستان کی خودمختاری پامال کی جائے گی تو ہمارے پاس جوابی کارروائی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوگا۔مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کی ساری باتیں نہیں مان سکتے ، پاکستان کے قومی مفادات کا دفاع ضروری ہے۔ سرتاج عزیز کا موقف تھا کہ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف یلغار کی گئی، افغانستان کی جنگ کے شعلے پاکستان تک پہنچے ، افغان مہاجرین کے کیمپ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بن گئے ،صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پہلے امریکہ کو مسلمانوں کے خلاف اپنی خدمات پیش کیں پھر چین کے خلاف ساتھ دے کر امریکہ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن امریکہ کی دوستی کوئی نعمت نہیں ، ہم نے اس کے نتائج دیکھ لیے ہیں اور اب دیکھتے ہیں کہ بھارت اس سے کیا حاصل کرتا ہے۔اس بریفنگ سے خطے میں امریکی ترجیحات اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کا واقع ہونا پوری طرح عیاں ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے کردار میں توسیع کا حالیہ فیصلہ بھی اسی حقیقت کا مظہر ہے جبکہ افغان فوج کی جانب سے طورخم پر فائرنگ کے واقعات کا تسلسل بھی یہی بتاتا ہے کہ افغان حکمراں امریکہ کی نئی پالیسی کے مطابق پاکستان کی مشکلات بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم امریکہ کا یہ طرز عمل کسی بھی طور نہ غیر متوقع ہے نہ حیرت انگیز۔ پاکستان کو سات دہائیوں میں بارہا اس کا تجربہ ہوچکا ہے کہ امریکہ اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد پاکستان کے مفادات کی کوئی پروا نہیں کرتا مگر بدقسمتی اب تک ہم نے ان تجربات سے کوئی پائیدار سبق نہیں سیکھا اور بار بار امریکہ کے دام میں گرفتار اور اس کے مفادات کے لیے استعمال ہوتے رہے۔مگر اب فی الواقع عالمی اور علاقائی حالات میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن میں چین کا بڑھتا ہوا عالمی کردار اورپاکستان سے اس کے اقتصادی روابط میں بے مثال ترقی نہایت اہم ہے اور آئندہ برسوں میں پورے خطے پر اس کے نہایت مثبت اور کلیدی اثرات متوقع ہیں۔ان بدلتے ہوئے حالات کے سبب اب امریکہ پاکستان کی مجبوری نہیں لہٰذا پاکستانی قیادت کا یہ عزم نہایت برمحل اور خوش آئند ہے کہ اس کے تمام فیصلے اور اقدامات کی بنیاد صرف پاکستان کا مفاد ہوگا ۔ اس راستے میں جو مشکلات بھی آئیں پوری قوم کو عزم اور حوصلے سے ان کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ غیروں کی محتاجگی سے نجات اور اپنے پیروں پرکھڑے ہونے کے لیے اس مرحلے سے گزرنا لازمی ہے جس کے بعد ان شاء اللہ سربلندی و سرفرازی پاکستان کا مقدر ہوگی۔